اسلامی FEMINISM

 



ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی علاقے میں دین کی دعوت دینے گئے تو بہت خوبصورت بات سے دعوت شروع کی ۔انہوں نے فرمایا " میں تمھیں غلام کی غلامی سے نکال کر ,غلام کے آقا کی غلامی میں دینے آیا ہوں۔"
اس بات میں حکمت کا خزانہ ہے۔ان الفاظ میں خود مختاری اور شخصی آزادی کی کنجی ہے۔
جب ہم اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کو اپنی کامیابی ,اپنی ناکامی,اپنی خوشی اور اپنی قدر کا معیار بنا لیتے ہیں تو ہم ان دیکھی لیکن تباہ کن قسم کی غلامی میں داخل ہو جاتے ہیں۔وہ چیز جو میری قدر میری کامیابی اور ناکامی کے معیار کا تعین کرتی ہے پس پردہ مجھے قابو کرتی ہے۔اور میرا آقا بن جاتی ہے۔
جس آقا نے عورت کی قدر کے معیار کا تعین کیا ہے اس نے ہر زمانے میں مختلف شکلیں بدلی ہیں۔عورت کے بارے میں مردوں کے بنائے ہوئے معیار ان سب میں مقبول ترین ہیں۔لیکن ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ خدا نے عورت کو جو مقام دیا ہے وہ خدا سے تعلق کی وجہ سے ہے نہ کہ مرد سے تعلق کی وجہ سے۔جبکہ مغربی Feminism میں جب خدا کو مانا ہی نہیں گیا تو پھر ان کے پاس مرد کے قائم کردہ معیار کے علاوہ کوئی معیار بچا ہی نہیں۔نتیجتاً مغربی Feminist  عورت اپنی قدر کا موازنہ مرد سے کرنے پر مجبور ہے۔اور ایسا کرنے میں اس نے ایک غلط مفروضے کو قبول کر لیا ہے۔ عورت نے قبول کر لیا ہے کہ مرد ہی معیار ہے اور عورت جب تک مرد کی طرح نہیں بن جاتی وہ مکمل انسان نہیں ہو گی۔
جب مرد اپنے بال چھوٹے رکھتا ہے تو عورت بھی بال چھوٹے رکھنا چاہتی ہے۔مرد فوج میں جاتا ہے تو عورت بھی فوج میں جانا چاہتی ہے۔
اہم بات جو ہم نہیں سمجھتیں وہ یہ کہ اللہ  تعالیٰ نے ہمیں مختلف ہونے پر مقام دیئے  ہیں ایک جیسا ہونے پر نہیں۔جب ہم مرد کو معیار بنا تے ہیں توعورت کی  ہر منفرد نسوانی خصوصیت کا درجہ کم تر ہو جائے گا۔
یعنی حساس ہونے کا مطلب کمزور ہونا اور  گھریلو ہونے کا مطلب بےکار ہونا ہے۔شعور جسے مردانہ خاصیت سمجھا جاتا ہے اور بے لوث رحم دلی جسے نسوانی خاصیت سمجھا جاتا ہے ۔ان دونوں کے موازنے
میں شعور کو برتری دی جائے گی۔
جیسے ہی ہم مردوں کے کاموں اور ان کی قابلیت کو معیار بنائیں گے تو اس کا فوری ردعمل ہوگا کہ اگر مردوں کے پاس ہے تو ہمیں بھی چاہئے۔اگر مرد پہلی صف میں نماز پڑھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے بھی بہتر ہے تو ہم بھی پہلی صف میں نماز پڑھنا چاہیں گے۔اگر مرد نماز کی امامت کر رہے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ امام خدا سے زیادہ قریب ہے تو ہم بھی نماز کی امامت کرانا چاہیں گے۔ سوچ کے اس طریقے میں ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا میں طاقت ور مقام حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ اس طرح آپ خدا کے قریب ہو جاتے  ہیں۔
لیکن ایک مسلمان عورت کو اس طرح اپنے مقام سے گرنے کی ضرورت نہیں۔اس کا مقام خدا نے مقرر کرنا ہے۔مسلمان عورت کو صرف یہ فکر ہے کہ خدا کی نظر میں اس کی کیا قدر ہے نہ کہ کسی مرد کی نظر میں۔
ہم عورت کے مقام پر پہنچ کر اپنی تذلیل کرتیں ہیں جب ہم کچھ اور بننے کی کوشش کرتیں ہیں جو حقیقت میں ہم بننا بھی نہیں چاہتیں یعنی " مرد"
عورت کبھی بھی سچ میں اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک ہم مرد بننے کی کوشش ترک نہیں کریں گی اور خدا نے جو نسوانی خصوصیات دیں ہیں ان کی قدر نہیں کریں گی۔
معاشرے میں ایک اور آقا بھی موجود ہے جو عورت کی قدر کا تعین کرتا ہے اور اس کا نام ہے خوبصورتی کا معیار ۔ عورت ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی معاشرہ ہمیں ایک واضح سبق سکھاتا ہے کہ سمارٹ ,خوبصورت اور پرکشش لگو کی تو تم اہم ہو گی ورنہ تمھاری کوئی قدر نہیں ہوگی۔سو ہمیں دکھایا گیا کہ میک اپ کرو فیشن کرو سٹائل رکھو۔بس اپنی زندگی,جسم اور وقار خوبصورت لگنے میں خرچ کر دو۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ چاہے ہم جو بھی ہوں ہماری قدروقیمت اس حد تک ہے جتنی ہم میں مرد کو خوش رکھنے اور خوبصورت لگنے کی صلاحیت ہے۔سو ہم نے ساری زندگی فیشن میگزین کے کور کو دے دی اور اپنا جسم بیچنے کے لیے ایڈورٹائزر کو دے دیا۔
ہم غلام بن گئیں لیکن ہمیں بتایا گیا  کہ یہ آزادی ہے۔ ہم ان کا ہتھیار بن گئیں لیکن ہمیں بتایا گیا کہ  آپ  کامیاب ہیں۔کیونکہ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ زندگی کا مقصد اپنی نمائش اور توجہ حاصل کرنا اور مردوں کے لیے خوبصورت لگنا ہے۔ ہمیں دکھایا گیا کہ آپ کے جسم کا مقصد ان کی گاڑیوں کو بیچنا ہے۔
لیکن یہ سب جھوٹ ہے
ہمارا جسم اور ہماری روح ایک عظیم مقصد کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔
قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے"اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تا کہ ایک دوسرے کی شناخت کرو ۔اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے شک خدا سب کچھ جاننے والا سب سے خبردار ہے"(قران 49:13)
عورت کو خدا نے عزت اور مقام دیا ہے۔لیکن اس عزت کا انحصار مردوں کو خوش رکھنے یا مردوں جیسا بننے پر نہیں ہے۔آپ کی قدر کا تعلق آپ کی کمر کے سائز یا آپ کے مرد پرستاروں پر منحصر نہیں۔آپ کی قدر کے پیمانے بہت بڑے ہیں۔نیکی اور پرہیزگاری۔اور آپ کا مقصد فیشن میگزین کے مطابق مردوں کی توجہ حاصل کرنے کی بجائے بہت عظیم ہے۔
ہمارے مکمل ہونے کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہمارا خدا سے تعلق کیسا ہے ۔نہ کہ جیسا بچپن سے ہمیں سکھایا گیا کہ ہماری زندگی میں کوئی مرد آ کر ہمیں مکمل کرے گا۔جیسا کہ سنڈریلا کی کہانی میں سکھایا گیا کہ ہم بے چاری ہیں اور کوئی شہزادہ آ کر ہمیں بچائے گا۔جیسے سلیپنگ بیوٹی کے ذریعے سکھایا گیا کہ جب تک پرنس چارمنگ آ کر kiss نہیں کرے گا ہماری زندگی شروع نہیں ہو گی۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شہزادہ آ کر آپ کی زندگی نہیں مکمل کر سکتا نہ ہی کوئی سپہ سالار آ کر آپ کو بچا سکتا ہے۔صرف خدا کے ہاتھ میں ساری قدرتیں ہیں۔
آپ کا شہزادہ صرف انسان ہے۔خدا نے اسے آپ کا ہمسفر بنایا ہو لیکن محافظ نہیں۔آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا لیکن مشکل کشا نہیں۔مشکل کشا خدا ہی ہے۔آپ کی نجات اور تکمیل خدا کے قرب میں ہے نہ کہ مخلوق کے۔نہ کسی شہزادے کے قرب میں ,نہ فیشن بیوٹی یا سٹائل کے۔
اس لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے پچھلے تمام سبقوں کو بھلا دیں اور علی الاعلان دنیا کو بتا دیں کہ میں کسی کی غلام نہیں نہ فیشن نہ بیوٹی نہ ہی مرد کی۔آپ صرف اور صرف اللہ کی غلام ہیں۔آپ دنیا کو بتا دیں کہ میں یہاں اپنے جسم سے مردوں کو خوش کرنے نہیں آئی۔بلکہ میں خدا کی رضا کی طالب ہوں۔ اور جو لوگ آپ کی "آزادی " کے خواہش مند ہیں ان کو مسکرا کر کہیں  "Thanks, but no thanks
(جی نہیں, شکریہ)
انہیں بتا دیں کہ آپ نمائش کا مال نہیں ۔نہ ہی آپ کا جسم لوگوں کی تفریح کے لیے ہے۔دنیا کو بتائیں کہ چیزیں بیچنے کے لیے آپ کی حیثیت کو گھٹا کر آپ کو صرف ایک چیز نہیں بنایا جا سکتا۔آپ ذی عقل, ذی شعور خدا کی بندی ہیں ۔اور آپ کی قدر  آپ  کی خوبصورتی آپ کی روح آپ کے دل اور آپ کے کردار میں ہے۔اس لیے ان کے خوبصورتی کے معیار کو قبول نہ کریں۔ان کے فیشن کے طریقوں کو تسلیم نہ کریں۔آپ کی اطاعت عظیم ہستی کے لیے ہے۔
چنانچہ اس سوال کا جواب کہ عورت کو خودمختاری کہاں اور کیسے ملے گی تو اس کا جواب واپس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیان میں ہے۔اصل آزادی اور خود مختاری یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو تمام آقاؤں ,تمام تعارف اور تمام معیاروں سے آزاد کریں۔
ایک مسلمان عورت ہونے کے ناطے ہمیں اس ان دیکھی غلامی سے آزادی مل جاتی ہے۔ہمیں اپنی قدر جاننے کے لیے معاشرے کے خوبصورتی اور فیشن کے معیار کی ضرورت نہیں۔ہمیں عزت دار ہونے کے لیے مرد بننے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی شہزادے کے انتظار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آئے اور ہمیں بچائے یا ہماری زندگی مکمل کرے۔ہماری قدر, ہماری عزت, ہماری نجات اور ہماری تکمیل مخلوق کی غلامی میں نہیں 
بلکہ مخلوق کے آقا کی غلامی میں ہے۔

Comments