کامیاب شادی کی راہ میں روکاوٹ

 


کامیاب شادی کی راہ میں روکاوٹ
نوٹ: اس آرٹیکل میں میاں بیوی کے باہمی احترام کا سب کم درجہ فرض کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جسمانی، ذہنی یا جذباتی اذیت یا تشدد کو کسی طرح بھی قبول کیا گیا ہے۔اپنے اور اپنے گھر والوں کے خلاف تشدّد کو قبول کرنا صبر نہیں ہے۔ اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اللّٰہ نا انصافی قبول نہیں کرتا اس لیے ہمیں بھی نہیں کرنی چاہیے۔
“اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے تمہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان محبت اور رحم رکھ دیا۔بے شک اس میں غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں” (قرآن 30:21)
ہم نے شادی کی دعوتوں میں یہ آیت ان گنت بار سنی ہو گی لیکن ہم میں سے کتنوں نے اس پر غور کیا ؟ ہم میں سے کتنوں کی شادیوں میں یہ محبت اور رحم پایا جاتا ہے؟
مسئلہ کہاں ہے جو ہماری بہت سی شادیاں طلاقوں پر ختم ہو رہی ہیں۔ 
ڈاکٹر ایمرسن ایگرچ(Emerson Eggrich) جو کہ کتاب محبت اور احترام (Love and respect) کے مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ جواب بہت آسان ہے۔ ایگرچ Eggrich ، محبت:عورت کی شدید خواہش اور عزت: مرد کی شدید ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ مرد کی اہم ضرورت عزّت ہے اور عورت کی اہم ضرورت محبت ہے۔ 
وہ اپنے نظریے جِسے وہ crazy cycle کہتے ہیں ،کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بحث و مباحثے کا ایک چکّر شروع ہو جاتا ہے جب عورت مرد کی عزّت نہیں کر رہی ہوتی تو جوابًا مرد بھی سنگ دلی یا روکھے پن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔اور دونوں رویّے ایک دوسرے کی وجہ بن رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جب ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ اس کا خاوند سنگ دل یا محبت سے خالی ہے تو اس عورت کا رویّہ بھی توہین آمیز ہو جاتا ہے۔جس کی وجہ سے خاوند مزید روکھے پن اور بیزاری کا رویّہ رکھتا ہے۔
ایگرچ Eggrich مزید واضح کرتا ہے کہ اس سلسلے کو توڑنے کے لیے چاہئیے کہ عورت مرد کی غیر مشروط عزّت کرے اور مرد عورت سے غیر مشروط محبت۔ ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب تک یہ سوچے گی کہ پہلے یہ محبت دکھائے پھر میں عزت کروں گی تو وہ مرد مزید بیزار ہو تاجائے گا اور مرد جب تک یہ سوچے گا کہ یہ پہلے عزّت دکھائے گی تو پھر ہی میں محبت دکھاؤں گا تو اس عورت کے توہین آمیز رویّےمیں اضافہ ہوتا رہے گا۔دونوں کو غیر مشروط ہونا پڑے گا۔ 
جب میں نے اس پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن و سنّت کی حکمت میں بھی شادی شدہ زندگی میں ان دو باتوں پر زور دیا گیا ہے۔
مردوں سے رسول اللّٰہ نے فرمایا کہ “ عورتوں کا خاص خیال رکھو کیونکہ ان کو ٹیڑھی پسلی سے بنایا گیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اوپر کے حصے میں ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اس کو توڑ دو گے۔اگر ایسے ہی چھوڑ دو گے تو یہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے ان کی خاص دیکھ بھال کرو” (مسلم بخاری)
انہوں نے مزید زور دیا کہ “ سب سے بہتر مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے، سب سے اچھا اخلاق اس کا ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہے”(ترمذی)
رسول اللّٰہ نے مزید فرمایا کہ” ایک مؤمن مرد کو،مؤمن عورت کو بُرا نہیں سمجھنا چاہئیے اگر اسمیں ایک بات بُری ہے تو ایک اچھی بھی ہو گی”(مسلم)
اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے “ ان کے ساتھ رحم دلی سے پیش آؤ ۔اگر تم ان کو نا پسند کرتے ہو، اور شاید تمہیں کچھ نا پسند ہو اور اللّٰہ نے اس میں تمھارے لیے خیر رکھی ہو”(قرآن 4:19)
ان حکمت کے موتیوں میں مردوں کو بیویوں کے ساتھ رحم دلی اور محبت سے پیش آنے پر زور دیا گیا ہے مزید اپنی بیوی کی غلطیوں کو در گذر کر کے اُن سے پیار اور رحم سے پیش آنے کا کہا گیا ہے۔ 
جبکہ دوسری طرف معاملہ برعکس ہے عورتوں کو کیوں نہیں اپنے خاوند سے پیار محبت سے پیش آنے کا بار بار حکم ہوا ہے؟ کیونکہ عورت قدرتی طور پر ہی غیر مشروط محبت کرتی ہے۔ بہت کم مردوں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ انکی بیوی ان سے محبت نہیں کرتی۔ لیکن اکثر کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان کی بیوی ان کی عزت نہیں کرتی ۔اور قرآن و سنّت میں عورتوں کے لیے اسی نقطے پر سب سے زیادہ زور ہے۔
عزت و احترام دکھانے کے بہت سے طریقے ہیں ۔سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ کسی کی خواہشوں کا احترام کیا جائے۔جب کوئی کہتا ہے کہ میں آپ کے مشورے کی عزت کرتا ہوں اس کا مطلب ہے کہ میں آپ کے مشورے پر عمل کروں گا۔ حکمران کی عزت کا مطلب ہے اس کے کہے پر عمل کرنا، والدین کی عزت کا مطلب ہے ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرنا، خاوند کی عزت کا مطلب ہے اسکی خواہشات کا احترام کرنا۔
رسول اللّٰہ نے فرمایا” جو عورت پانچ وقت نماز پڑھے ، رمضان کے مہینے کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کا کہنا مانے تو اس سے کہا جائے گا چاہے جس دروازے سے چاہے جنّت میں داخل ہو جائے”(الترمذی)
ہم عورتوں کو مردوں کی خواہشات کا احترام کرنے کا کیوں کہا گیا ہے؟ اور ان پر عمل کرنے کا کیوں کہا گیا ہے؟
کیونکہ مردوں کو عورتوں کی نسبت زیادہ ذمّہ داریاں دی گئی ہیں۔اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ” مردوں کو عورتوں کا قوّام (محافظ ،دیکھ بھال) بنایا گیا ہے۔ اللّٰہ نے ایک کو دوسرے سے زیادہ طاقتور بنایا ہے۔اور مرد اپنے وسائل ان پر خرچ کرتے ہیں” (قرآن 4:34) 
لیکن کیا یہ غیر مشروط عزت و احترام بیویوں کو کمزور اور غلام ظاہر نہیں کرتا؟ کیا اس طرح ہم نے بد سلوکی کرنے والوں اور مفاد پرستوں کو کھلی چھوٹ نہیں دے دی؟ 
اس کا جواب ہے نہیں ۔ کیونکہ کہ قرآن وسنت کی مثالوں اور جدید دور کی تحقیق میں اس کے بالکل بر عکس حالات دیکھنے میں آئے ہیں ۔ جتنی عورت عزت و احترام  دکھائے گی اتنا ہی مرد محبت دکھائے گا ۔ جتنا توہین آمیز رویّہ عورت رکھے گی مرد اتنی ہی بیزار اور بے رخی دکھائے گا۔ 
بالکل اسی طرح اگر مرد بھی سوچے کہ اس عورت کے ساتھ پیار محبت اور مہربانی کا معاملہ کیوں رکھوں جو میری عزت ہی نہیں کرتی ۔اس سوال کا جواب حضرت عمر رضی کی مثال میں ہے۔ایک دن ایک صحابی رضی اپنی بیوی کی شکایت کرنے حضرت عمر رضی کے پاس آئے۔ اس وقت حضرت عمر رضی مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔انہوں نے سُنا حضرت عمر رضی کی بیوی اٌن پر غصّہ کر رہی تھیں۔ صحابی رضی وہیں سے لوٹنے لگے تو حضرت عمر رضی نے ان کو واپس بلایا ان صحابی رضی نے فرمایا کہ اپنے ایک مسئلے کے سلسلے میں حاضر ہوا تھا لیکن آپ کو خود وہ مسئلہ درپیش ہے۔اس پر حضرت عمر رضی نے فرمایا کہ ان کی بیوی ان کا خیال رکھتی ہے،ان کے کپڑے دھوتی ہے، ان کا گھر صاف رکھتی ہے،انہیں آرام مہیّا کرتی ہے،اور بچوں کا بھی خیال رکھتی ہے ۔جب وہ یہ سب کر رہی ہے تو کیا میں ان کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتا۔ 
اس مثال میں صرف مردوں کے لیے سبق نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔اس کہانی میں صبر اور برداشت کی بہت خوبصورت مثال ہے جو کہ کامیاب شادی شدہ زندگی کے لیے بہت ضروری ہے اور آخرت میں صبر کرنے کا اجر الگ۔ اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے” جنہوں نے صبر کیا ان کو پورا پورا اجر ملے گا”(قرآن 39:10)

Comments