ایمان کی بیداری

 



ایمان کی بیداری                                                 
اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔جیسے آپ ساری زندگی غار میں رہے ہوں اور اسی غار کو اپنی کل کائنات سمجھتے رہے ہوں۔اور ایک دن اچانک آپ غار سے باہر قدم رکھیں اور زندگی میں پہلی بار آسمان کو دیکھیں آپ درخت پرندوں اور سورج کو پہلی بار دیکھیں ۔اس نظارے کو دیکھنے کے بعد آپ کو پہلی بار احساس ہو کہ آپ اب تک جھوٹی زندگی جیتے رہے ہیں۔پہلی بار آپ سچی اور زیادہ خوبصورت حقیقت کو دیکھ رہے ہوں۔شعور کے اس بلند  مقام پر کیسے احساسات ہوں گے۔آپ کو طاقت کا احساس ہو گا کہ دنیا میں ایسا کچھ نہیں جو آپ نہ کر سکتے ہوں پچھلی زندگی کے کسی معاملے کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔آپ کو پہلی بار مکمل بیداری ,زندگی, آگاہی اور شعور کا احساس ہوگا ۔یہ نا قابلِ بیان احساس ہے۔یہ روحانی بیداری ہے جو حق کے نئے تعارف  سے آتی ہے۔ 
یہ ایمان کی بیداری ہے۔
نو مسلم اس احساس سے واقف ہیں۔مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے جب دین کی طرف واپس  لوٹتے ہیں تو اس احساس کو جانتے ہیں۔خدا کی راہ سے بھٹکا ہوا جب واپس آتا ہے تو وہ اس احساس کو جانتا ہے اس احساس کو ابن القّیم رضی اللہ نے اپنی کتاب مدارج السالکین (صراط مستقیم کے درجے) میں یَقَظَ(ایقاظ یا بیداری) کہا ہے ۔وہ اس کیفیت کو خدا کی راہ میں درجوں میں سے پہلا درجہ کہتے ہیں۔اس حالت کو اکثر نو مسلم کا جوش بھی کہتے ہیں ۔جب کوئی شخص خدا کی راہ کی طرف پہلی بار یا واپس آتا ہے تو وہ جذبے اور توانائی سے بھر پور ہوتا ہے ۔ اس توانائی کی وجہ یہی ایمان کی بیداری کا احساس ہے۔
ایمان کی بیداری کے احساس کی خصوصیات 
اللہ عبادت کو آسان بنا دیتا ہے۔اس حالت میں انسان میں اتنا جذبہ ہوتا ہے کہ عبادت اس کے لیے بہت آسان ہوجاتی ہے۔حق کی اس راہ کے لیے جو اس نے نئی نئی دریافت کی ہے وہ سب کچھ آسانی سے قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا  ہے۔اسکا جوش اسے 0 سے 60 تک بڑی آسانی سے لے جا سکتا ہے۔ یہ روحانی طاقت کے انجکشن جیسا ہے۔جو طاقت محسوس ہوتی ہے وہ آپ کی نہیں بلکہ ایمان کی طاقت ہے جو خدا کی طرف سے ہے۔ ایسے موقع پر لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ تبدیلی میں  زیادہ تیزی اور زیادہ جلدی نہ کرو۔میرے خیال میں تبدیلی  مسئلہ نہیں ہے بلکہ تکبّر یا مایوسی ہے ۔ جب اللہ آپ کو ایسی نعمت سے نواز رہا ہے جس کے ذریعے آپ کچھ اچھا کر سکتے ہیں تو آگے بڑھیں اسے استعمال کریں۔لیکن اللہ کے شکرگذار بندے بن کر۔نہ کہ اپنے پر  فخر  کیا جائے۔اور اس سوچ کے ساتھ کہ یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔آپ 0 سے 60 تک بڑی آسانی سے جا سکتے ہیں لیکن اس کیفیت کےگذرنے کے بعد مایوس ہو کر واپس 0 تک نہ آ جائیں۔
عارضی 
زندگی کی ہر کیفیت کی طرح یہ کیفیت بھی عارضی ہوتی ہے۔زندگی کا راستہ ہموار نہیں اور نہ ہی ایمان  کی راہ۔اس کیفیت کے کم ہونے کی وجہ سے انسان مایوسی اور کم ہمتی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس کیفیت کے نقصانات
اگر اس کیفیت کی مندرجہ بالا خصوصیات کو نہ سمجھا جائے تو دو طرح کے نقصانات ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور یہی نقصانات اس وقت بھی ہوتے ہیں جب کوئی خدا کی راہ میں ایک جگہ مسلسل  رکا رہے۔تکبّر یا عبادت کا زعم اور دوسرا نا امیدی۔متکبر شخص اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اس لیے وہ اپنی اصلاح کی کوشش چھوڑ دیتا ہے۔نا امید شخص کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کبھی بہتر نہیں ہو سکتا اس لیے وہ کوشش ہی نہیں کرتا۔دونوں متضاد بیماریاں ہیں لیکن دونوں کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ دونوں صراطِ مستقیم کی جستجو چھوڑ دیتے ہیں۔
تکبّر: اس نقصان کا تعلق اس بات کو نہ سمجھنے سے ہے کہ عبادت کا شوق بھی اللہ کی نعمت ہے اور یہ ایمان کی بیداری کی خصوصیت ہے۔اس میں کسی انسان کا کوئی کمال نہیں۔جس کو یہ بات سمجھ نہیں آتی وہ اپنی عبادت کو اپنی خوبی سمجھتا ہے اور اپنے نیک ہونے پر فخر کرتا ہے۔یہ جھوٹا فخر بہت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی کو جنم دیتا ہے۔
ایمان ہدایت اور نیکی کی توفیق کو وہ اللہ کی نعمت سمجھنے کی بجائے  اپنی قابلیت سمجھنے سے وہ اپنے آپ کو نیک اور دوسروں کو کم تر سمجھنے لگتا ہے۔
مایوسی اور نا امیدی: اس نقصان کا تعلق اس بات کو نہ سمجھنے سے ہے کہ زندگی کی ہر حالت اور کیفیت کی طرح روحانی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے۔اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ ناکام ہیں یا گناہ گار۔رمضان گذرنے کے بعد اکثر لوگوں میں مذہبی جوش و جذبہ کم ہو جاتا ہے۔اس جذبے میں اتار چڑھاو  زندگی کا حصہ ہے۔اور یہ سبق تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی نے بھی سیکھا۔ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ اور حضرت ہنزلہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم حضرت مُحَمَّدﷺ کے پاس تشریف لائے۔اور حضرت ہنزلہ رضی اللہ  نے فرمایا ! ہنزلہ منافق ہو گیا یا رسول اللہﷺ  آپ  ﷺنے فرمایا "ایسا کیوں ہوا؟" میں نے فرمایا "یا رسول اللہ ﷺجب ہم آپ کی محفل میں ہوتے ہیں اور آپ جنت کے باغات اور جھنم کی آگ کا ذکر کررہے ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم اپنی آنکھوں سے سب دیکھ سکتے ہیں۔لیکن جب ہم اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے پاس ہوتے ہیں تو ہماری وہ کیفیت نہیں رہتی۔" رسول اللہ ﷺنے فرمایا ! "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم پر وہ حالت(ایمان کی حالت) مسلسل رہے جو میری موجودگی کے وقت یا ذکرِ الہٰی کے وقت ہوتی ہے تو فرشتے تمھیں تمھارے بستروں اور گلیوں میں تم سے مصافحہ کریں۔لیکن ہنزلہ ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا "اور ایسا آپﷺ نے تین بار فرمایا۔(مسلم)
جذبہ ایمان میں کمی کے بعد
صراطِ مستقیم کی طرف سفر کی سب سے اہم بات ہے کہ اس راہ میں حوصلہ نہ ہاریں۔اگر جذبہ ایمانی میں کمی محسوس کریں تو اس کی یہ وجہ  نہیں کہ آپ میں کمی ہے۔ ایمانی جوش و جذبے میں اتار چڑھاؤ قدرتی طور پر ہے۔جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کو سمجھایا کہ ایمان کی مختلف کیفیات ہیں جو بدلتی رہتی ہیں۔اگر ہم ہمیشہ ایمان کی بلند سطح پر رہتے تو ہم فرشتے ہوتے۔کامیابی کا تعلق اس بات سے نہیں کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جب آپ کا ایمان بلند سطح پر ہو۔بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ایمان کی کم تر سطح پر  اپنے آپ کو خدا کی راہ سے اور خدا کی امید سے جوڑے رکھا۔کامیابی یہ ہے کہ مشکل وقت میں اپنے ایمان کو بچایا جائے۔ 
شیطان کا جال
یاد رکھیں شیطان آپ کی حالت کے مطابق مختلف انداز سے آپ پر حملہ آور ہو گا۔
روحانی عروج کی حالت
جب آپ روحانی طور پر ایمان کی اچھی حالت میں ہوں گے تو شیطان آپ پر تکبر اور فخر کے ساتھ حملہ کرے گا۔آپ اپنی نیکی اور عبادت پر فخر کریں گے اور دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھیں گے۔آپ اپنے آپ کو اتنا بہتر سمجھنے لگیں گے کہ جیسے آپ کو اصلاح کی ضرورت نہیں اور آپ اپنی اصلاح کی کوشش بھی چھوڑ دیں گے۔شیطان آپ کو اس  فریب میں ڈالے گا کہ میں وہ سب گناہ نہیں کر رہا جو لوگ کر رہے ہیں اس لیے میں تو پرفیکٹ ہوں۔مجھے اصلاح کی ضرورت نہیں۔مثلاً اگر آپ پردہ نہیں کرتیں تو شیطان آپ کے دل میں خیال ڈالے گا کہ کچھ  پردہ  کرنے والیاں فلاں فلاں گناہ کرتی ہیں ۔کم از کم میں وہ گناہ نہیں کرتی اور میں تو فلاں فلاں اچھے کام کرتی ہوں جو پردہ کرنے والیاں نہیں کرتیں۔ یا اگر آپ نماز نہیں پڑھتے تو یہ سوچیں کہ کم از کم میں کلب اور نشہ نہیں کرتا۔یاد رکھیں اللہ کے سامنے سب نے  الگ الگ اپنا حساب دینا ہے۔اللہ کی نظر میں ہمارا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔یہ صرف شیطان کا فریب ہے ۔جس سے وہ ہماری توجہ نیکی اور اصلاح سے ہٹانا چاہتا ہے۔
ایمان کی کمزوری کی حالت
لیکن جب آپ کا ایمان کمزور ہو تو شیطان آپ پر مختلف طریقے سے حملہ آور ہو گا۔وہ آپ کو نا امید بنائے گا۔آپ کو یقین دلائے گا کہ آپ کبھی اچھے اور نیک نہیں ہو سکتے۔اس لیے کوشش کرنی بیکار ہے۔یا تم اتنے بڑے گناہ گار ہو کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں یا تمھارا گناہ اتنا بڑا ہے کہ معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔یا گناہ چھوڑنا  نا ممکن ہے۔نتیجتاً آپ مزید برائی میں دھنستے جاتے ہیں۔ہو سکتا ہے ہدایت کی راہ پر آنے کے بعد آپ سے ایسی غلطیاں ہو گئی ہوں کہ آپ اپنے آپ سے مایوس ہو گئے ہو۔کیونکہ شاید راہِ ہدایت پر رہتے ہوئے آپ دوسروں کو غلطی کرنے کی یا کمزوری دکھانے کی گنجائش نہیں دیتے تھے یہ رویہ بہت تباہ کن ہے ۔اس لیے جب آپ سے غلطی ہوئی تو آپ خود سے بھی  بد دل اور مایوس ہوگئے۔اگر آپ یہ بات قبول نہیں کریں گے کہ راہِ ہدایت پر چلنے والے بھی انسان ہیں ان سے بھی غلطی اور گناہ  ہو سکتے ہیں۔تو آپ اپنے اوپر بھی جبر وظلم کریں گے اور اپنی غلطیوں کوتاہیوں کی وجہ سے اپنی ہدایت سے مایوس ہوں گے۔اپنے اوپر رحم کریں ورنہ آپ گناہوں اور مایوسی کے بھنور میں مسلسل دھنستے چلے جائیں گے۔شیطان توبہ اور دعا سے دور رکھنے کے لیے بھی وسوسے ڈالتا ہے کہ گناہ کر کہ نماز پڑھتے ہو تم منافق ہو یا توبہ کرنے کا کیا فائدہ پھر گناہ ہو جائے گا۔ ظاہر ہے یہ سب جھوٹ ہے۔ وہ آپ کو خدا کی رحمت سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔لیکن شیطان اپنے ہنر کا ماہر ہے۔گناہ کے بعد تو سب سے زیادہ رجوع اور اللہ کے سامنے حاضری کی ضرورت ہے۔
اپنے آپ کو ذلت کے اس دھوکے سے بچانے کے لیے یاد رکھیں کہ ایمان میں کمزوری آنا تو لازمی ہے۔فتور انسان کا حصہ ہے۔اگر آپ کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا مطلب آپ کی نا کامی یا منافقت نہیں (جیسے صحابہ کرام نے سوچا) تو آپ خدا کی راہ میں حوصلہ نہیں ہاریں گے۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کم از کم کچھ چیزوں کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔چاہے آپ کی جو حالت اور کیفیت ہو آپ جیسا بھی محسوس کر رہے ہوں آپ کم از کم ان لازمی چیزوں کو ضرور  کریں گے۔کبھی کبھی جب آپ کو محسوس ہو گا ان چیزوں کو کرنا بہت مشکل ہے لیکن پھر بھی ہمت کر کہ کرنے کی کوشش کریں۔مثال کے طور پر پانچ وقت نماز کو کم از کم اپنے اوپر لازم کر لیں۔چاہے جتنا مشکل لگے نماز ضرور پڑھیں بالکل سانس لینے کی طرح اسے اپنے پر لازم کر لیں۔ کیا جب آپ تھکے ہوئے ہوتے ہیں یا پریشان ہوتے ہیں تو سانس لینا تو نہیں چھوڑتے۔
اور آہستہ آہستہ ان میں قرآن ,نفل عبادات اور اذکار کا اضافہ کرتے جائیں۔  یاد رکھیں اللہ تعالیٰ چھوٹے لیکن لگاتار اچھے اعمال کو زیادہ پسند کرتا ہے بہ نسبت بڑے لیکن کبھ کبھار کے۔اگر ایمان کی پستی کے دنوں میں آپ ان اعمال سے بندھے رہیں گے تو ان شآاللہ  عروج کی بلندیوں پر واپسی آئیں گے۔اور باذن اللہ  ایمان کے پہلے سے  بلند درجے پر فائز ہوں گے
ایمان کی راہ ہموار نہیں ہے ۔ ایمان میں کمی بیشی ہو گی۔عبادت کے شوق میں بھی اتار چڑھاؤ آئے گا۔لیکن ہر زوال کے بعد عروج آئے گا۔شرط یہ ہے کہ آپ ایمان کی راہ سے جڑے رہیں ,حوصلہ رکھیں ہمت نہ ہاریں ,صبر کریں اور پر امید رہیں۔ایمان کی راہ مشکل ہے نا ہموار ہے لیکن زندگی کے ہر سفر کی طرح یہ راہ بھی اپنی منزل پر جا کر ختم ہو جائے گی۔اور منزل پر پہنچ کر ہمیں یہ احساس ہو گا کہ یہ راہ کتنی قیمتی تھی۔ 
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے 
"اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے ۔بالآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے" 
(قرآن 84:6)

Comments