دل خدا کا گھر

 



دل کو پاک صاف کرو
کسی برتن میں کچھ ڈالنے سے پہلے اسے خالی کیا جاتا ہے۔دل بھی ایک برتن کی طرح ہے اسی طرح اس میں کچھ ڈالنے سے پہلے اس کو بھی خالی کرنا پڑتا ہے۔آپ کے دل میں خدا کے لیے جگہ بن ہی نہیں سکتی اگر اس پر پہلے سے خدا کے سوا کسی اور کا قبضہ ہے۔ 
دل کو صاف کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ دل کو محبت سے خالی کر دیا جائے بلکہ اس کے بر عکس خدا چاہتا ہے کہ اِس میں خالص محبت ہو جو جھوٹی اور دنیاوی حصول اور توقعات سے جڑی نہ ہو۔
دل کو صاف کرنے کا طریقہ کلمہ شہادت کے پہلے حصے میں ہے۔یہ غور طلب بات ہے کہ عقیدے کا اقرار نفی سے ہو رہا ہے۔یعنی تنقیدی انکار یعنی مکمل صفائی۔
سچی توحید پر پہنچنے کی امید سے پہلے،صرف ایک خدا پر یقین رکھنے کے دعوٰی سے پہلے،ہم دعوٰی کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا خدا نہیں۔الٰہ وہ ہے جس کی بندگی و عبادت کی جائے لیکن یہاں یہ بات سمجھنی اشد ضروری ہے کہ الٰہ صرف وہ نہیں جس سے صرف دعا مانگی جائے بلکہ الٰہ وہ ہے جس کی بندگی کی جاتی ہے یعنی وہ ہماری زندگی کا مرکز و مقصد ہو ہماری صبح شام اس کے مطابق اس کے گِرد گھومتے ہوں جو ہماری زندگی میں سب سے اہم ہو ،جس کی ہم تابعداری کرتے ہوں ۔جس کے بغیر ہم زندگی کا تصوّر نہ کر سکتے ہوں ۔
اسلیے ہر شخص چاہے وہ بے دین ہو،ملحد ہو، مادیت پرست ہو، مسلمان ہو عیسائی ہو یا یہودی اسکا کوئی نہ کوئی الٰہ ضرور ہوتا ہے۔ 
ہر شخص کسی نہ کسی کی بندگی ضرور کرتا ہے ،بہت سوں کے لیے الٰہ دنیاوی زندگی کی کوئی چیز ہو گی،کچھ دولت و رتبے کی ،کچھ شہرت کی،کچھ اپنی ذہانت اور اپنی ہی ذات اور اپنے بنائے ہوئے خود ساختہ اصولوں کی بندگی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دوسرے انسانوں کو پوجتے ہیں اور جیسے قرآن میں ذکر ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اور وہم و خیال کی بندگی کرتے ہیں
“بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے ( گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اسکو گمراہ کر دیا اور اسکے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اسکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔اب خدا کے سوا کون راہ پر لا سکتا ہے” (قرآن 45:23)
کچھ چیزوں سے ہم پوجنے کی حد تک تعلق جوڑ لیتے ہیں ،ضروری نہیں ہمیں اُن سے محبت ہی ہو ،وہ ہماری ضرورت بھی ہو سکتے ہیں کہ اُن کے نہ ہونے سے ہماری زندگی آدھی ادھوری ہو جائے ۔اگر خدا کے علاوہ کسی سے بھی یہ تعلق جڑ جائے تو جانیے یہ تعلق جھوٹا ہے۔
حضرت ابراہیم۴ کو کیوں اپنے بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا؟ تا کہ انہیں آزاد کیا جائے ،انہیں بیٹے کی محبت کا بُت توڑنے کا حکم ہوا۔ایک بار وہ آزاد ہوگئے تو اُن کو اُنکی محبوب چیز بھی واپس لوٹا دی گئی۔اگر کسی شخص یا کسی چیز سے ایسا تعلق قائم ہو جائے کہ اس کے کھونے سے آپ بالکل ٹوٹ جائیں تو یہ تعلق جھوٹا تھا یہ سہارا کھوکھلا تھا۔جن چیزوں کو کھونے کا خوف ہمیں مرض کی حد تک ہو تو وہ سہارا جھوٹا تھا۔اگر محسوس ہو کہ یہ ہمارے ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں تو ہم انہیں واپس حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہوجاتے ہیں ہم انہی کی جستجو میں لگے رہتے ہیں کیونکہ اُن کے بغیر ہماری زندگی میں اتنا بڑا خلاء آجائے گا جتنا ہمارے دل میں ان کی چاہت ہے۔ پیسہ، پراپرٹی، لوگ،نظریہ،نفسانی خواہش، نشہ، رتبہ، روشن مستقبل،عزّت،پہچان ،لوگوں کی رائے، ڈگری، تنخواہ،حکمرانی کا جذبہ، ذہانت ، قوّتِ فیصلہ یہ سب جھوٹے سہارے ہوتے ہیں۔
جب تک ہمارے دل میں اِن میں سے کسے کی چاہت ہے تو ہمارا دل پاک نہیں ہو سکتا اور جب تک دل پاک نہ ہو اس میں خدا نہیں بسا سکتے۔
اپنے دل کو ان جھوٹی چاہتوں سے پاک کرنے کی جستجو اس دنیا کی سب سے عظیم جستجو ہے۔یہ جستجو توحید کا عرق ہے۔ اگر ہم اسلام کے پانچ ستونوں کا جائزہ لیں تو اُن کا لازمی مقصد یہی لا تعلقی پیدا کرنا اور دل کی صفائی ہے۔

جب تک دل پاک نہ کریں اس میں خدا کو نہیں بسا سکتے۔اگر دیکھا جائے تو اسلام کے پانچوں ستونوں کا مقصد بھی دل کی صفائی ہے
کلمہ شہادت: (ایمان کا اقرار): 
شہادت زبانی اقرار ہے اس لا تعلقی کے اعلان کا کہ عبادت ، بندگی، محبت، خوف اور امید لگانے کے لائق صرف اور صرف ایک خدا کی ذات ہے۔اپنے آپ کو تمام چاہتوں اور تعلقات کے سہاروں سے آزاد کر کے صرف خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا ہی توحید کا اصل مظہر ہے۔
صلٰوہ(نماز):
دن میں پانچ بار ہم اپنے آپ کو دنیا سے ہٹا کر اپنے خالق حقیقی اور اپنے اصل مقصد کی طرف لاتے ہیں دن میں پانچ بار ہم دنیا سے لا تعلق ہو کر اپنی ساری توجہ اپنے خدا کی طرف کرتے ہیں نماز دن یا ہفتے میں ایک بار یا پانچوں نمازیں ایک ہی بار تجویز ہو سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ۔پانچ نمازیں پورے دن میں پھیلائی گئی ہیں۔اگر پانچوں نمازیں اپنے مقررہ اوقات پر ادا کی جائیں تو اس دنیا میں ڈوبنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ جیسے ہی ہم دنیاوی معاملات میں غرق ہوتے ہیں کسی نہ کسی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ نوکری ہو ،ٹی وی شو ہو، امتحان ہو، کوئی پریشانی ہو ، ہلّا گلا پارٹی ہو، یا ذہن پہ چھایا کوئی شخص، ہم ان سب سے لا تعلق ہو کر اپنی توجہ اپنے سچّے سہارے اپنے خالق و مالک کی طرف کرتے ہیں
صیام:(روزہ):
روزے کا مطلب ہی لا تعلقی ہے کھانے پینے، جنسی ضروریات، لغویات سے لا تعلقی 
ہم جسمانی پرہیز کے ذریعے سے اپنے روحانی وجود کو خالص ،پاک اور ممتاز کرتے ہیں۔
روزے کے ذریعے ہم اپنی جسمانی ضرورتوں ،خواہشوں اور تسکین سے لا تعلقی اختیار کرتے ہیں۔ 
زکٰوہٌ: (زکٰوت):
زکٰوہٌ کا مطلب ہے اپنے مال کو اپنے دل سے 
نکال کر دل کو مال کی محبت سے پاک کرنا اس مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے ہم خدا کے علاوہ ہر محبت کو جو حد سے بڑھ کر بیماری بن جائے اسکا علاج کرتے ہیں۔
حج:
حج لا تعلقی کے اظہار کا بہت گہرا اور جامع عمل ہے۔ایک حاجی اپنا سب کچھ چھوڑ کر جاتا ہے اپنا گھر،اپنا خاندان،اپنا کاروبار، آرام دہ زندگی، مہنگے کپڑے،نرم بستر سب پیچھے چھوڑ کر زمین پر سوتا ہے،ہجوم کے ساتھ تنگ جگہ میں رہتا ہے صرف سادہ دو چادریں لپیٹ کر۔حج کے موقع پر منٰی اور مزدلفہ میں کوئی امیری اور غریبی کا فرق نہیں رہتا
خدا کی حکمت اور رحمت کا اندازہ کریں جس نے صرف دنیا میں گُم نہ ہونے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ طریقہ بھی بتایا ہے۔پانچ بنیادی ستونوں کے علاوہ ہمارے لباس کا طریقہ بھی لا تعلقی کا ذریعہ ہے۔حضرت محمد علیہ صلٰوہ السلام نے ہمیں ہجوم سے الگ نظر آنے کا کہا ہے۔ حجاب پہننے سے اور داڑھی رکھنے سے ہم سب سے منفرد نظر آتے ہیں۔ حضرت محمد علیہ الصلٰوہ السلام نے فرمایا “اسلام شروع میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا اور سلام ہو اجنبیوں پر”
دنیا میں اجنبی ہو کر رہنے کا مطلب ہے کہ ہم اس دنیا میں تو رہیں لیکن اس دنیا کے طریقے کا حصہ نہ بنیں ۔اسی طرح سے ہم اپنے دل کو پاک رکھ سکتے ہیں اور اسے اپنے اصل مقصد کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔جو ہے اپنے خالق اپنے مالک اپنے مہربان رَب سے مُلاقات۔

Comments