امت کی یکجہتی

 


عرب سپرنگ مصر 2011.
جب حضرت موسیٰ(علیہ السلام) بحر احمر کے کنارے اپنی قوم کے ساتھ کھڑے تھے اور پیچھے سے ظالم اپنی فوج کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔تو ان حالات کے پیش نظر موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں تفریق پیدا ہو گئی۔قوم کے کچھ لوگ بد گمان ہو گئے اور انہیں اپنی موت صاف دکھائی دے رہی تھی۔
"پھر جب دونوں جماعتیں آمنے سامنے ہوئیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا :(اب) ہم ضرور پکڑے گئے"(قرآن 26:61) 
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نظر کچھ اور ہی دیکھ رہی تھی۔ان کی روحانی نظر دنیا کی ظاہری تکالیف اور شکست کے دوسری طرف دیکھ سکتی تھی۔ انہوں نے دیکھا۔ خدا سے جڑے ہوئے دل کی آنکھ سے انہوں نے بظاہر انہی ناممکن حالات میں خدا کو اپنے ساتھ دیکھا ۔
(موسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا: ہر گز نہیں بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے راہ دکھائے گا"(قرآن 26:62)
"تو ہم نے موسیٰ(علیہ السلام )کو وحی فرمائی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو۔تو دریا پھٹ گیا ۔اور ہر ایک ٹکڑا  (یوں) ہو گیا گویا بڑا پہاڑ۔اور دوسروں کو ہم نے وہاں قریب کر دیا۔اور موسی اور اس کے ساتھیوں کو تو بچا لیا۔پھر دوسروں کو ہم نے  ڈبو دیا۔"(قرآن 66-26:63)
آج (2011)مصر میں,ہم بحر احمر کے کنارے کھڑے ہیں.آج مصر میں ایک ظالم اور اس کی فوج ہمارے پیچھے ہے۔آج کچھ لوگوں کو صرف شکست نظر آ رہی ہے۔جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں اس روکاوٹ کے کے دوسری طرف راستہ اور امید  نظر آرہی ہے۔آج مصر میں کچھ لوگ , جبکہ ایک ظالم ان کی تاک میں ہے کہہ رہے ہیں کہ"بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے اور مجھے راستہ دکھائے گا"
اگر کسی کا خیال ہے کہ موجودہ نازک حالات میں پرانے واقعات کو کیوں دہرایا جا رہا ہے۔جو واقعہ ہزاروں سال پہلے ہوا اس کا آج کے حالات سے کیا تعلق? وجہ یہ ہے کہ یہ صرف واقعہ نہیں اور نہ ہی پرانا ہے۔یہ ہمیشہ رہنے والی نشانی ہے اور ہر زمانے کا سبق۔اگلی آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ" بے شک اس میں نشانی ہے لیکن اکثر مانتے نہیں"  (قرآن 26:67)
اس نشانی میں خدا کی پہچان ہے اور اس دنیا کی حقیقت کا راز  ہے۔یہ نشانی ہے کہ ظلم کی جیت نہیں ہوتی اور مصائب و پریشانیاں صرف نظر کا دھوکہ ہیں, ان کا مقصد ہماری تربیت اور پاکیزگی ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اصل کامیابی کہاں سے ملتی ہے۔اور کامیابی کا تصور کیا ہے جب ہم کمزور, ہارے ہوئے اور  گھرے ہوئے ہوں تو ایسے موقع پر کامیابی کسے کہتے ہیں۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ اگر ہم خدا کی طرف ہیں تو ہمیں کامیابی آسانی سے نہیں مل جانی چاہئیے۔کچھ سوچتے ہوں گے کہ خدا نیک لوگوں کو بغیر جدوجہد اور قربانی کے فتح کیوں نہیں دے دیتا۔اس کا جواب خدا نے خود ہی دے دیا ہے۔
"اور ہم کسی بستی میں رسول اس وقت تک نہیں بھیجتے جب تک اس بستی کے رہنے والوں کو دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا نہ کریں تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔(قران 7:94) 
اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق دکھوں کا مقصد "تضروا" کی حالت پیدا کرنی ہے ۔تضروا کا مطلب اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار ہے۔لیکن یہ صرف عاجزی نہیں ہے۔تضروا کی حالت سمجھنے کے لیے سوچیں آپ سمندر کے عین درمیان میں ہیں اور کشتی میں بالکل اکیلے ہیں تصور کریں کہ سخت طوفان آ جائے اور پہاڑ جتنی لہریں کشتی کو گھیر لیں۔اس وقت سوچیں آپ خدا کو پکارتے ہیں اور مدد مانگتے ہیں اس پکارنے میں جو لاچاری, بے بسی, ڈر اور صرف خدا سے امید, صرف خدا کی طرف رجوع اور عاجزی کی جو حالت ہو گی اسے تضروا کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ ہمیں عاجزی کے تحفے سے نوازنے کے لیے مصائب بھیجتے ہیں۔خدا کو ہمیں تکلیف دینے کی کیا ضرورت۔ضرورت تو ہمیں ہے ان تکالیف کی کہ ان کے بغیر ہم ان منزلوں تک کبھی نہ پہنچ پائیں جو اس نے ہمارے فائدے کے لیے رکھی ہیں۔
یہ انمول عاجزی, قرب الہیٰ , اور صرف خدا سے امید کا تحفہ آج مصری لوگوں کو ملا ہے۔اللہ اکبر!  اللہ تعالیٰ ان مصائب اور تکالیف کا ایک اور مقصد بیان کرتے ہیں۔
" اور ہم نے انہیں جماعت جماعت کر کے ملک میں منتشر کر دیا۔بعض ان میں نیکوکار ہیں اور بعض اور طرح کے اور ہم آسائشوں اور تکلیفوں سے دونوں کی آزمائش کرتے رہے تا کہ وہ ہماری طرف رجوع کریں۔
(قرآن 7:168) سورۃ آلِ عمران میں فرمایا کہ 
" اگر تمہیں کوئی زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی ایسا زخم لگ چکا ہے اور یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں اس لئے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا درجہ دے اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ۔اور اس سے اللہ کا مقصد یہ بھی تھا کہ ایمان والوں کا ایمان پاک کر دے اور کافروں کو مٹا دے۔کیا تم اس گمان میں ہو کہ بغیر آزمائش جنت میں جا داخل ہو گے۔ابھی اللہ نے تمھارے غازیوں کو اور صبر کرنے والوں کو آزمایا ہی نہیں"(قران 142-3:140)
یہاں اللہ تعالیٰ تکالیف کا مقصد" تمحیص" بیان کرتے ہیں۔تمحیص لفظ سونے کو گرم کر کے پگھلا کر صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پگھلائے بغیر سونے کو گندگی سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔تمحیص کے عمل سے سونے کو پاک کیا جاتا ہے۔اسی عمل سے خدا مؤمنوں کو گذارتا ہے۔مصیبتوں سے گذر کر مؤمن پاک ہو جاتا ہے سونے کی طرح ۔
اسی طرح مصری قوم بھی پاکیزہ ہوئی۔عرب سپرنگ سے کچھ عرصے پہلے تک دنیا مصری نوجوانوں کو بیکار سمجھتی تھی۔ یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ بے مقصد اور بے منزل زندگی گذار رہے ہیں۔یہ  گلیوں میں وقت ضائع کرنے , لڑکیوں کو چھیڑنے, انٹر نیٹ کیفے یا حقہ بار میں ہی ساری زندگی گذار دینا چاہتے ہیں۔ اس آزمائش کے بعد مصری نوجوان واپس زندگی کی طرف لوٹے ہیں۔
اب یہ جوان ظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہیں نماز اجتماعات میں پڑھ رہے ہیں اور اجتماعی دعائیں کر رہے ہیں۔کچھ دن پہلے تک جو لڑکے مشکل سے نماز پڑھتے تھے آج فوجی ٹینکوں کے سامنے نمازیں پڑھ رہے ہیں۔کچھ دن پہلے تک مصری مسلمانوں اور مصری عیسائیوں کے آپسی جھگڑے عروج پر تھے لیکن آج وہی مسلمان اور عیسائی اپنے ملک کے دفاع کی خاطر شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔اس مشکل وقت سے پہلے جن کے آپس میں اختلافات تھے, اس آزمائش نے سب کو پگھلا کر  آپس کی نفرتیں جھگڑے بھلا کر , اپنے گھر گلی محلے کے دفاع کے لیے تمام بہنوں اور بھائیوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔اور اس مصیبت کے آنے کے بعد وہ لوگ جن کی زندگی موبائل فون , شیشہ اور سگریٹ تھی اپنے لوگوں کی  آزادی کی خاطر جان قربان کرنے والا بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ 
"ان سے پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا یا تمھارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار  اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے۔اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ۔جھٹ کہہ دیں گے کہ خدا ۔تو کہو کہ پھر تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں۔"(قرآن 10:31) 
اللہ ہی ہے جو بے جان سے جاندار نکالتا ہے ۔اسی نے ہماری مردہ قوم میں جان ڈالی ہے۔ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچیں کہ یہ سب خدا بغیر کسی مقصد کے کر رہا ہے ایسا مقصد جو بہت گہرا خوبصورت اور  آزادی دلانے والا ہے۔کئی دہائیوں سے مصری لوگ خوف کی زندگی جئیے ہیں۔اور جب خوف آپ کی زندگی پر طاری ہو جائے تو آپ اس کے غلام ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مصری عوام  کو اپنے سب سے بڑے خوف کا سامنا کر کے اسے شکست دے کر اس غلامی سے نجات دی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مصری عوام  کو اس ہمت کے ذریعے آزادی دی ہے کہ وہ  ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اور دنیا کو بتائیں کہ اب ان پر خوف راج نہیں کر سکتا۔اس لیے حسنی مبارک (مصری حکمران )  رہے یا جائے, زندہ رہے یا نہ رہے مصری عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔مصری عوام آزاد ہو گئی ہے۔
حسنی مبارک کی اب کوئی اہمیت نہیں ۔وہ صرف ایک ذریعہ تھا جس کو اللہ نے مصری عوام اور ساری امت کے لیے استعمال کیا۔اس کے ذریعے اللہ نے مصری عوام اور امت کی سوچ کو درست کیا اور صحیح سمت دی۔ آج ہم مصر میں ہیں یا نہیں یہ اہم نہیں مصر صرف مسلمان امت کے جسم کا ایک حصہ ہے۔مصر کا تزکیہ تمام امت کے جسد کا تزکیہ ہے۔یہ ہم سب کا تزکیہ ہے۔ ہم سب کے لیے سبق ہے۔ہمیں ان حالات میں اپنا جائزہ لینا چاہئیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کس سے جذباتی طور پر جڑے ہیں?۔ہمارے خوف کیا ہیں?۔ہمارے جدوجہد کیا ہے? ہم کس کے لیے جان دے سکتے ہیں?ہم کس طرف جا رہے ہیں? 
جب جسم سکتے کی حالت میں ہو تو صرف خدا اپنی رحمت سے ہی بیداری بھیجتا ہے ۔صرف خدا کا کرم ہو تو بے جان میں جان آجاتی ہے۔ہم لاپرواہ ہو گئے تھے تو خدا نے ہمیں نشانی دکھائی۔ہم سوئے ہوئے تھے خدا نے بیداری دی۔ہم اس دنیاوی زندگی کے پجاری تھے اور اپنی روح کو بھی مادہ پرستی میں جکڑ کر قید کر رکھا تھا اور طاقتور سے ڈرتے تھے تو خدا نے ہمیں آزاد کر دیا 
دنیا میں کتنے لوگوں کی زندگیوں میں ایسے تجربے ہوئے ہوں گے۔کتنے لوگوں نے دریا کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے اور ظالم کو جھکتے دیکھا ہو گا۔کیا ہمیں خود سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہئیے کہ خدا نے ہمیں ہی کیوں چنا یہ سب دیکھنے کے لیے? کیا ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ ہمیں کیا سیکھنا چاہیے اور ہماری سوچ میں کس تبدیلی کی ضرورت ہے ہمیں کیا بدلنا ہے? کیونکہ اگر ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ صرف مصر کے لوگوں کا مسئلہ ہے تو ہم بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے ذریعے ہماری بیداری بھی کرنی ہے۔ہماری مردہ سوچ کو خدا نے زندگی دینی ہے۔
ہمیں یہ سکھایا گیا کہ ہمارا دشمن ہمارے وجود سے  باہر ہے اور اس نے ہم پر قبضہ کیا ہوا ہے۔یہ بھی ایک غلط خیال ہے۔دشمن ہمارے اندر ہے۔باہر کے دشمن صرف ہماری اندرونی بیماریوں کی علامتیں ہیں۔اگر باہر کے دشمن کو قابو کرنا ہے تو پہلے اپنے اندر کے دشمنوں کو ختم کرنا ہو گا۔اس کے لیے قرآن کہتا ہے کہ
"بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے" (قرآن 13:11)
ہمیں سب سے پہلے شرک, لالچ, خود غرضی سے نجات اور اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف ,کسی اور سے محبت,کسی اور سے امید,اور تابعداری والی سوچ کو ہرانا ہوگا۔ہمیں دنیا کی محبت کو ہرانا ہو گا جو تمام روحانی بیمایوں اور ظلم و ستم کی جڑ ہے ۔وقت کے فرعونوں سے نجات سے پہلے اپنے اندر کے فرعونوں کو ہرانا ہو گا۔
مصر کی جنگ آزادی کی جنگ ہے ۔ آزادی لیکن کس سے? کون اصل میں مظلوم ہے?کیا ہم اور آپ اصل میں آزاد ہیں? اصل جارہیت کیا ہے? ابن تیمیہ رحم اللہ علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ " قید میں وہ ہے جس کا دل خدا سے غافل ہے اور گرفتار وہ ہے جسے اس کی خواہشوں نے غلام بنا رکھا ہے" ( ابن القیم -الوبل) 
جب آپ کی سوچ آزاد ہو گی تو کوئی آپ کی آزادی نہیں چھین سکتا۔جب آپ اندر سے آزاد ہوں گے تو آپ کی نظر ظالم اور لٹیروں پر نہیں بلکہ ان کے مالک اور ان پر قدرت رکھنے والے خدا پر ہو گی۔جب آپ اندر سے آزاد ہوں گے تو کوئی آپ کو قید نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ آپ ہر حال میں آزاد ہوں گے۔صرف اسی شخص کو ڈرایا جا سکتا ہے جس کو نقصان کا خوف ہو۔صرف وہی آپ کو دبا سکتا ہے  جو آپ کے وسائل پر قابض ہو یا چھیننے کی طاقت رکھتا ہو۔لیکن ایک چیز جو کوئی آپ سے چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا وہ ہے آپ کا خدا پر ایمان۔
اس لیے مصر کی آزادی کی جدوجہد اصل میں بڑے پیمانے پر دیکھا جائے تو ہماری ذاتی آزادی کی جنگ ہے۔
یہ ہمارے نفس اور خواہشوں کی حکمرانی کے خلاف جنگ ہے۔اپنے آپ کی ان تمام جھوٹی محبتوں چاہتوں اور جھوٹی انحصاری سے جنگ ہیں جنہوں نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے, جن کی ہم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہیں۔یہ ہماری اپنی سوچ سے آزادی کی جنگ ہے۔ چاہے ہم نے اپنے آپ کو امریکی ڈالر کا غلام بنا رکھا ہے یا اپنی خواہشوں ,رتبے,دولت, یا خوف کا غلام بنا رکھا ہے۔مصر کا تزکیہ ہم سب کا تزکیہ ہے۔
اسی لیے قرآن میں کامیابی کا فارمولہ ان دو چیزوں کو کہا گیا ہے"۔صبر "اور" تقویٰ"
" اے ایمان والو! صبر کرو ,ثابت قدم رہو ,مورچوں پر جمے رہو,تقوٰی رکھو  تاکہ تم کامیاب رہو"(قرآن 3:200)
اس لیے اگر ہم مصر کے حالات کو صرف تماشے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس سے اپنی حالت اپنی زندگی اور ارد گرد کے حالات کا جائزہ لینے سوچنے سمجھنے اور تبدیل کرنے کے لیے کچھ نہیں سیکھتے تو ہم  مقصد ضائع کر دیں گے۔
کیونکہ ایسے معجزے روزانہ نہیں ہوتے۔روزانہ سمندر دو حصوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔

Comments