امت کی طاقت

 



میرے خیال میں انسانی دماغ  میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں انسان مشکل حالات میں پناہ لیتا ہے۔اور دل میں ایک کونہ ایسا ہے جہاں زندگی میں ہونے والے حادثے ہمیشہ  زندہ رہتے ہیں۔جبکہ شام اور فلسطین کے لوگوں کے لیے یہ سانحے اور حادثے دل و دماغ کا تصور نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کی حقیقت ہے۔
اس قتل و غارت کو بے یارومدد گار کھڑے دیکھتے ہوئے میں بھی سوچتی ہوں کہ کہاں پناہ لوں۔میں اپنے ذہن کے اندر جھانکتی ہوں کہ شاید اس بے حسی کی کوئی منطق سمجھ میں آئے۔یا سمجھوں یہ سب حقیقت نہیں ۔لیکن میں اداسی, غصے,مایوسی , پریشانی میں ہی غرق ہو جاتی ہوں اور آخر میں یہی سوال کہ کیوں???? 
یہ سب کیوں ہو رہا ہے?پوری دنیا میں ہم زیر عتاب کیوں? ہم اسے روکنے کے قابل کیوں نہیں?بیرون ممالک میں ہم سیاسی طور پر کمزور کیوں ہیں ? ہمارے پر زور احتجاج ,وائٹ ہاوس کو اور نمائندوں کو لکھے جانے والے خطوط کے جواب میں اگلے ایک ہی منتر کیوں پڑھتے ہیں کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے? ہم اس مقام پر کیوں ہیں? کیوں ہمارے ذہن "کیوں" کے سوالات سے بھرے ہؤئے ہیں? 
ہمیں واقعی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم" امت" کے لحاظ سے کہاں ہیں۔اور ہم کیا بن گئے ہیں۔ایک وقت تھا جب مسلم امت دنیا میں قابل احترام تھی۔دوست ہم سے محبت کرتے تھے اور ہمارے دشمنوں کے دل میں ہمارا خوف تھا۔آج ہم دنیا کے نشانے پر, بدنام اور قابل نفرت گروہ بن چکے ہیں۔ گیلپ  پول سروے 2011 کے مطابق آدھے سے زیادہ امریکیوں کی اسلام کے بارے میں رائے" نہیں پسند" یا "زیادہ نہیں پسند"  تھی۔اور 43% نے اعتراف کیا کہ مسلمانوں کے لیے وہ" کچھ"متعصب ہیں۔جو کہ عیسائیوں ,یہودیوں اور بدھ مت والوں کی تعداد کے مقابلے میں دوگنی ہے۔
ہم نہ صرف نفرت کے  نشانے پر ہیں بلکہ ہم تشدد قتل اور غاصبانہ قبضے کے متاثرین بھی ہیں۔جہاں ہمیں مادی نقصان نہیں پہنچایا جا رہا وہاں ہم سے بنیادی حقوق چھینے جا رہے ہیں جھوٹے الزام لگائے جا رہے ہیں اور جھوٹے الزام میں قید کیا جا رہا ہے۔مسلمانوں سے نفرت اتنی زیادہ گہری ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ بیان بازی کو لوگ اپنی سیاسی تقریر اور سیاست کو چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آج ہمیں جو صورت حال درپیش ہے اس کا احوال حضرت محمد ﷺ نے 1400 سال پہلے بیان کر دیا تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے فرمایا "لوگ تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے بلائیں گے جیسے دسترخوان پر کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔" کسی نے پوچھا "کیا ایسا اس لیے ہو گا کہ ہم تعداد میں کم ہوں گے"آپ ﷺ نے فرمایا "نہیں بلکہ کثیر تعداد ہو گے۔لیکن تمھاری حالت پانی کے اوپر جھاگ جیسی ہو گی اور اللہ تمھارے دشمنوں کے دل سے تمھارا رعب نکال دے گا اور تمھارے دلوں میں "وہن" ڈال دے گا" کسی نے پوچھا "وہن کیا ہے " آپ ﷺ نے فرمایا" دنیا کی محبت اور موت سے نفرت"(صحیح حدیث ابو داؤد اور احمد)
جیسا کہ حضرت محمد ﷺ نے پیشن گوئی کی تھی, قوموں نے ایک دوسرے کو ہم پر حملے کی دعوت دی جیسے دستر خوان پر کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے ہماری حالت بیان کی جو کہ سمندر کے پانی پر جھاگ کی مانند ہے۔اگر آپ سمندر کے پانی کی سطح  پر جھاگ کی پتلی تہہ دیکھیں جو بالکل بے وزن اور بے حیثیت ہوتی ہے۔ہلکی سی ہوا سے ختم ہو جاتی ہے۔اس میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ یہ اپنی سمت بدل لے بلکہ جہاں پانی کا بہاؤ ہو گا یہ بے وزن جھاگ اسی سمت مڑ جائے گی۔
یہ ہماری حالت ہے ۔جیسا رسول اللہ ﷺ نے بیان کی۔ ہمیں اب" کیوں" کے سوال کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔حضرت محمد ﷺ نے اس کا جواب وضاحت سے دیا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ دلوں میں "وہن" آجائے گا۔جب "وہن"کا معنی پوچھا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے کم الفاظ میں بہت گہری سچائی بیان کر دی۔آپﷺ نے فرمایا "دنیا کی محبت اور موت سے نفرت" ۔ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دی جو دنیا کی زندگی میں اس قدر غرق ہو جائیں گے کہ ان میں خود غرضی, مادہ پرستی , آخرت اور اللہ سے لاپرواہی کی خصلتیں پیدا ہو جائیں گی۔آپ ﷺ کے مطابق وہ لوگ دنیا کی زندگی کو پانے کے لیے اخلاق اور کردار کھو دیں گے۔
اخلاقی کردار کے دائرے کے اندر ہی قوموں کی قسمت بدلتی ہے ۔ عروج سے زوال اور زوال سے عروج کا سفر اس قوم کے کردار کے عروج و زوال سے وابستہ ہے۔ 
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ "درحقیقت اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم اپنے آپ کو نہ بدلے"(قرآن 13:11) لوگوں کا کردار ہی ہے جو انہیں سپر پاور سے پانی کی جھاگ بنا دیتا ہے۔
اور یہی کردار اور دل کی حالت ہے جسے بدلنے سے کوئی جھاگ سے دوبارہ طاقتور بن سکتا ہے۔
ہم مسلمانوں کو کبھی امید نہیں ہارنی چاہئیے۔ نصرت دین ( مدد اور کامیابی ) اللہ کا وعدہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کا حصہ بنیں گے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں اس کی یاد دہانی کرواتے ہیں کہ" نہ بے دل ہو اور نہ دکھی ہو۔تم ہی کامیاب ہو گے اگر تم سچے مؤمن ہو"
(قرآن 3:139) 
صرف ہمارے خالص ایمان سے اور کوشش کے بعد ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری حالت بدلیں گے۔اس لیے    لہولہان  شام اور فلسطین کے واسطے خدارا امت کو ہوش میں آنے کی اور خدا سے جڑنے کی ضرورت ہے۔

Comments