ماڈرن اسلام

 



سینیٹر جان کیری نے 2004 میں اپنی پہلی صدارتی تقریر میں سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہوئے کہ امریکہ کو انتہا پسند اسلامی مسلمانوں کو معاشرے میں تنہا  کرنے کی ضرورت ہے کہا کہ 
"میرے پاس دہشت گردی کی جنگ لڑنے کا بہتر منصوبہ ہے- - - انتہا پسند اسلامی مسلمانوں کو تنہا  کیا جائے بجائے اس کے کہ وہ امریکہ کو تنہا کر دیں"
پہلے تو اس بیان میں لفظوں کا غلط اور زائد استعمال محسوس ہوا۔مسلمان کا مطلب ہی اسلام کو ماننے والا اور اسلام پر چلنے والا  یعنی" اسلامی" ہے پھر اسلامی مسلمان کہنے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے ہم کہیں امریکی امریکن۔
تو کیا جان کیری سے صرف الفاظ دہرانے کی غلطی ہوئی ہے یا اس کے بیان میں ایسی بات ہے جو اسے بھی پتہ نہیں۔? کیا تمام مسلمان اسلامی ہیں ? سچ تو یہ ہے کہ نہیں -
ڈھکے چھپے انداز میں اسی خیال کا اظہار ہو رہا ہے کہ انہیں  مسئلہ خود اسلام سے ہے۔اگر اسلام کے عقیدے میں ہی انتہا پسندی ہے تو کم اسلامی ہونا ہی مسئلے کا حل ہے۔اس لیے ماڈریٹ مسلمان (درمیانے درجے کا مسلمان)جو نام بہت پسند کیا جارہا ہے اس کا مطلب ہے اسلام پر درمیانے درجے میں چلنے والا یعنی درمیانے درجے کا خطرناک۔یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کہیں کہ جتنا کم  سیاہ فام ہو گا اتنا کم مجرم  یا پر تشدد (violent ) ہو گا۔اس کے برعکس جو زیادہ اسلامی ہو گا وہ اتنا ہی انتہا پسند ہو گا جس کی وجہ سے اسے معاشرے میں علیحدہ کر دیا جائے۔
درحقیقت مونا مئےفیلڈ ان اصولوں کو بہت اچھی طرح سمجھ گئی تھی ۔اسی لیے جب وہ اپنے خاوند کا دفاع عدالت میں کر رہی تھی جس پر سپین بم بلاسٹ کے منصوبے میں شامل ہونے کا جھوٹا الزام تھا ۔تو مونا نے اپنے خاوند کے مسلمان ہونے کا دفاع کرتے ہوئے  مؤقف اختیار کیا کہ "ہمارے گھر میں بائیبل ہے۔وہ انتہا پسند نہیں۔وہ صرف اسلام کو مختلف اور منفرد سمجھتا تھا"
مئے فیلڈ نے اپنے خاوند کو معصوم ثابت کرنے کے لیے اس کے خاوند کے اسلام سے لگاو کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی۔اور اسکے خاوند کے اسلام قبول کرنے کی وضاحتیں دینے لگی جیسے اسلام قبول کرنا بڑا جرم تھا۔
مسجد کے منظم شہریار احمد نے بھی مئے فیلڈ کے دفاع میں یہی طریقہ اختیار کیا۔انہوں نے رپورٹر کو بتایا کہ "وہ بہت ماڈریٹ لگتا تھا۔وہ جمعے کو مسجد میں وضو کرکے بیان سننے آتا تھا لیکن باقی مسلمانوں کی طرح پانچ وقت مسجد نہیں آتا تھا"
لگتا تھا کہ برینڈن مئے فیلڈ کے مجرم یا بے گناہ ہونے کا تعلق  اس کی نمازوں سے تھا یا اس سے کہ وہ کتنا اسلامی ہے۔مسجد کے منظم شہریار احمد صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میرے حساب سے تو وہ زیادہ مذہبی نہیں تھا۔
میڈیا کے مطابق " زیادہ مذہبی نہ ہونا" ہی مسلمانوں کے اچھا ہونے کی شرط بن گئی ہے ۔ارشاد مانجی جو میڈیا کی کاروباری شخصیت ہیں اور The Trouble with Islam  کی مصنفہ ہیں وہ میڈیا کے مطابق اچھے مسلمانوں کی علمبرداروں میں سے ایک ہیں۔تمام بڑے میڈیا چینل اور ذرائع  پر مانجی اور ان کی تحریروں کو جگہ ملتی ہے ۔
انہیں جرآت اور ہمت پر  Oprah's Chutzpah Award بھی مل چکا ہے۔
جبکہ مانجی اپنے آپ کو باغی مسلمان کہتی ہے۔اور میڈیا اس کو اچھے مسلمان کی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ڈینئل پائپ (Daniel Pipes)جو کہ united states institute of peace کی بورڈ ممبر ہے وہ مانجی کو باہمت ,ماڈریٹ, اور ماڈرن مسلمان کے القابات دیتی ہے۔لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ نہ پائپس کا امن سے کوئی تعلق ہے اور نہ مانجی کا اسلام سے۔    washington postکے آرٹیکل میں مانجی نے نماز کے بارے میں جو کہ اسلام کی سنگ بنیاد ہے اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا
اس نے خود سے ہی نماز پڑھنا شروع کی ۔اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرہ دھونے کے بعد وہ velvet rug (جائے نماز) پر  مکہ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتی ۔ بعد میں اس نے یہ بھی چھوڑ دیا کیونکہ وہ اندھی فرمانبرداری اور عادتاً اطاعت نہیں کرنا چاہتی تھی"
مانجی پوری دنیا کے 1,5بلین مسلمانوں کے اس عمل (نماز) کے بارے میں رائے رکھنے میں آزاد ہے۔مانجی نماز یا تمام اعمال کو چھوڑنے میں بھی آزاد ہے۔لیکن مانجی کو کوئی عام مسلمان عورت کے طور پر نہیں پیش کیا گیا جس نے نماز چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ اسلام کے بنیادی رکن کو ترک کرنے کے اس کے ذاتی فیصلے کو آزادی کی جنگ اور ظلم کے خلاف جنگ  بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جو مسلمان زیادہ مذہبی نہیں ہونا چاہتے ان کے لیے اسے ہمت اور جرآت کی مثال بنا کر پیش کیا گیا۔
اس مثال سے یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ جو جتنا سیاہ فام ہوگا اتنا ہی برا یا مجرم  ہو گا یا جو جتنا یہودی ہو گا اتنا ہی غلط ہو گا۔اور جو کم سیاہ فام یا کم یہودی ہونے کی کوشش کرے گا وہ آزادی کا مجاہد ہوگا۔مثال کے طور پر مانجی نے washington post سے بات کرتے ہوئے کہا کہ " تشدد تو ہونا ہی ہے تو پھر کیوں نہ آزادی کے لیے تشدد سہا جائے"
بالکل آزادی اچھی ہے۔مانجی نے شائد بہتر طریقے سے کہا ہو۔کیری نے شائد ڈھکے چھپے انداز میں کہا ہو۔لیکن کیلیفورنیا ایمپیرئیل ویلی کے بزنس مینجمنٹ پروفیسر نے کھل کر کہا ہےکہ " اسلامی دہشت گردی سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسلام کے مذہب کو مٹا دیا جائے"
لیکن اس بات کو کوئی جس طرح بھی کہے جب اسلام کی بات آتی ہے تو  اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ جتنا کم ہو اتنا ہی اچھا ہے۔

Comments