عورت کی امامت

 



عورت کی امامت
18 مارچ ,2005, کو آمنہ ودود نے عورت کی امامت میں پہلی بار جمعہ کی نماز پڑھائی۔اس دن عورت نے مرد بننے کی طرف ایک بہت بڑا قدم اٹھایا۔لیکن کیا اس کا خدا کی طرف سے دی گئی آزادی سے کوئی تعلق تھا۔
میرے خیال میں بالکل نہیں۔
اکثر ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے  عورت کو عزت دے کر جو مقام دیا ہے اس کا تعلق عورت اور خدا کے درمیان رشتے سے ہے نہ کہ عورت اور مرد کے درمیان مقابلے سے۔لیکن مغربی Feminism نے خدا کے تصور کو ہی ختم کر دیا ہے اب اپنے مقام کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے پاس مردوں کے علاوہ کوئی معیار بچا ہی نہیں۔اس لیے مغربی Feminism مردوں سے اپنا مقابلہ کرنے  پر مجبور ہیں۔اور اس غلط سوچ کا شکار ہو گئی ہے کہ مرد ہی اعلیٰ معیار  ہیں اس لیے جب تک میں اس جیسی نہیں بن جاتی مجھے مکمل انسان نہیں سمجھا جائے گا۔ 
اس لیے جب مرد بال چھوٹے رکھتا ہے تو عورت بھی بال چھوٹے رکھنا چاہے گی۔مرد فوج میں جاتا ہے تو عورت بھی فوج میں جانا چاہے گی۔ یہ سب کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ عورت نے مرد بننا  ہی بلند مقام اور عزت کا معیار سمجھ لیا ہے
عورت نہیں سمجھی کہ مرد اور عورت کا مقام ان کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کی وجہ سے ہے۔
نہ کہ ایک جیسا ہونے کی وجہ سے۔اور 18 مارچ کو ایک مسلمان عورت نے یہی غلطی کی۔
1400 سالوں سے علماء کا اجماع ہے کہ مرد امامت کرے گا۔مسلمان عورت ہونے کے ناطے اس میں ہمارے لیے پریشانی کی بات کیوں ہے? نماز کی امامت کا مطلب یہ نہیں کہ ایمان کے لحاظ سے امام کو باقی نمازیوں پر کوئی برتری حاصل ہو گئی۔اگر مرد کوئی عمل کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس عمل کو محض  اس وجہ سے برتری حاصل ہو گئی ہے کیونکہ یہ مرد کر رہا ہے۔امامت صرف اس لیے برتر نہیں کیوں کہ آپ سب کے آگے کھڑے ہیں۔اگر امامت عورتوں کے لیے ہوتی یا خدا کے قرب کا ذریعہ ہوتی تو حضرت مُحَمَّدﷺ نے حضرت عائشہ, حضرت خدیجہ,اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھن اجمعین جیسی عظیم خواتین  کو کیوں نہیں نماز کی امامت کرنے کو کہا ? ان خواتین کو جنت کی بشارت تھی پھر بھی انہوں نے کبھی نماز کی امامت نہیں کرائی۔
لیکن آج 1400  سال بعد جب ہم نے مرد کو امامت کراتے دیکھا تو سوچا " یہ تو انصاف نہ ہوا"۔ہمارا خیال ہی ہے ورنہ خدا کی نظر میں تو امام کی نماز کو باقیوں کی نماز پر کوئی برتری نہیں۔
جبکہ دوسری طرف صرف عورت ہی ماں بن سکتی ہے۔ اور خدا نے عورت کو یہ خاص مقام دیا ہے۔اور حضرت محمد ﷺ  نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔اور مرد جو کچھ کر لے ماں نہیں بن سکتا۔پھر یہ نا انصافی کیوں نہیں۔?
جب پوچھا گیا کہ ہماری رحم دلی کا سب سے بڑا حق دار کون ہے تو اس سوال کے جواب میں تین دفعہ کہا گیا تمھاری ماں اور چوتھی بار صرف ایک بار کہا گیا تمھارا باپ۔کیا یہ تفریق نہیں ۔مرد جو بھی کر لے ماں کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔
اب جبکہ خدا نے ہمیں نسوانیت کی وجہ سے منفرد مقام دیا ہے۔ہم اپنی قدر کروانے کے لیے مرد سے مقابلے میں اور اس جیسا بننے میں مصروف ہیں۔ہم نے بھی مردوں کو ذہنی طور پر اپنے سے بہتر قبول کیا ہوا ہے اس لیے ہم ہر نسوانی خصوصیت کو کم تر سمجھتی ہیں۔حساس, رحم دل ہونے کو کمزوری اور غلط  سمجھتے ہیں, گھریلو ہونے کو بیکار ہونا سمجھتے ہیں۔مردانگی اور نسوانیت کی جنگ میں ہمیشہ مردانگی کوبہتر سمجھا جاتا ہے۔
جب ہم مرد سے متعلق ہر عمل کو بر تر سمجھ لیتے ہیں تو اس کا فوری ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اگر مرد کر رہا ہے تو ہمیں بھی کرنا ہے۔اگر مرد امامت کر رہا ہے تو ہم نے بھی کرنی ہے۔اگر مرد پہلی صف میں کھڑا ہے تو ہم کیوں نہیں? ہمارے خیال میں دنیا میں مرتبے والے کام کرنے کا مطلب ہے کہ آپ خدا کی نظر میں بھی بر تر ہو گئے ہیں۔
مسلمان عورت کو اس طرح اپنے مقام سے گرنے کی ضرورت نہیں۔اس کا مقام خدا نے مقرر کرنا ہے مرد نے نہیں۔
مردوں جیسا بننے کے جہاد میں عورت نے کبھی رک کر سوچا ہی نہیں کہ ممکن ہے جو میرے پاس ہے وہ میرے لیے زیادہ بہتر ہے۔کبھی کبھی مردوں جیسا بننے کے چکر میں ہم کافی بہتر مقام سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
50  سال پہلے معاشرے نے ہمیں بتایا کہ مرد ہم سے برتر ہیں کیونکہ وہ گھر سے فیکٹری جاتے ہیں کام کرنے کے لیے۔ہم مائیں تھیں۔ لیکن ہمیں بتایا گیا کہ بچے کو پالنے اور تربیت کرنے کی بجائے مشینوں پر کام کرنا عورت کی آزادی ہے۔اور ہم نے قبول کر لیا کہ معاشرہ کی بنیاد رکھنے کی بجائے مشینوں پر کام کرنا زیادہ افضل ہے۔صرف اس لیے کہ یہ مرد کر رہا ہے۔
اور پھر اس کے بعد ہم سے توقع کی گئی کہ ہم super woman بن کر دکھائیں جو اچھی ماں ہو ,اچھی بیوی ہو, اچھا گھر سنبھالے اور زبردست کیرئر ہو۔عورتوں کے کیرئیر رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن مردوں کی طرح بننے کی اندھا دھند کوشش میں ہم نے بہت کچھ قربان کر دیا۔ہم نے اپنے بچوں میں عجیب تبدیلیاں دیکھیں جس سے ہمیں اپنا مقام کھونے کا احساس ہوا۔
اور اب مغرب میں عورت اپنی مرضی سے گھر رہ کر بچے پالنے کو ترجیح دے رہی ہے.امریکہ کے ادارے ۔united states department of agriculture 
کے مطابق صرف 31% مائیں اور 18% دو یا تین بچوں والی خواتین کام کرتی ہیں۔اور parenting magazine 2000 کے مطابق ان میں سے بھی 93%  گھر میں اپنے بچوں کے پاس رہنا چاہتی ہیں لیکن "مالی ذمہ داری" کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ "مالی ذمہ داری "  بھی ان عورتوں پر ماڈرن مغرب کے مرد عورت کی برابری کے اصول کی وجہ سے ہے ورنہ اسلام نے تو عورت کو مرد سے مختلف ہونے کی وجہ سے اس ذمہ داری سے آزاد رکھا ہے۔
100  سالوں کے تجربوں کے بعد مغرب کی عورت کو جس کا احساس ہوا, اسلام نے 1400  سال پہلے ہی عورت کو وہ آسانیاں دے دیں تھیں۔
عورت کے مقام پر پہنچ کر , میں اپنی توہین کروں گی جب میں مرد بننے کی کوشش کروں گی جو کہ میں بننا بھی نہیں چاہتی۔ہم اس وقت تک آزاد نہیں ہوں گی جب تک مردوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے ہم عورت کے مقام کو اپنائیں۔
اگر مجھے جبری انصاف اور رحم دلی میں سے انتخاب کرنا ہو تو میں رحم دلی کو منتخب کروں گی۔اور اگر دنیا کی قیادت اور پاوں تلے جنت میں سے انتخاب کرنا ہوا تو جنت میرا انتخاب ہو گا۔

Comments