سوشل میڈیا کا خطرہ

 

ہم ایک  "آئی "دنیا میں رہتے ہیں۔ 
"IPHONE","IPAD","MY SPACE"  
         ، توجہ کا مرکز واضح ہے۔میرا ،میں ،مجھے
خود پسندی کو دیکھنے کے لیے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنی چیزیں بیچنے کے لیے ایڈورٹائزر اکثر آپ کی اَنا کو ابھارتا ہے۔مثال کے طور پر اکثر اشتہار ہمارے اندر طاقت اور رتبے کی خواہش کو ہوا دیتے ہیں۔اکثر اشتہارات کے الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ طاقت, کنٹرول آپ کے ھاتھ میں۔
لیکن صرف ایڈورڈزر ہی ہماری ا٘نا کو بڑھاوا نہیں دیتے بلکہ یہ ایک عالمی رجحان ہے جو ہماری انا کو پالنے اور بڑھاوا دینے کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے ۔آج کل اسے Facebook  کہتے ہیں۔اس کی افادیت کے حق میں بولنے والی میں پہلی ہوں گی۔دوسری چیزوں کی طرح اس کے بھی استعمال پر منحصر ہے۔چھری سے پھل کاٹ کر بچے کو دیاجا سکتا ہے اور چھری سے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔فیس بک بہت اچھے مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے_آخر کار یہ فیس بک ہی تھا جس کے ذریعے ظالم حکمران سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملی۔ فیس بک انتظام ,اجتماع ,دعوت,اور اتحاد کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔فیس بک کے ذریعے ہم لوگوں کو اللہ سے اور اللہ والوں سے جوڑ سکتے ہیں لیکن وہیں فیس بک ہمارے نفس کو پالنے اور بڑھاوا دینے میں بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ 
انا, خود پرستی,فخر ,غرور ہم سب کے وجود کا حصہ ہیں ۔اس انا کو پالنے میں خطرہ یہ ہے کہ جتنا اس کو خوراک ملے یہ طاقتور ہوتی جاتی ہے اور جتنی طاقتور ہو اتنی ہی یہ ہم پر حکمرانی کرتی ہے-اور پھر ایک وقت ایسا آتا کہ ہم اللہ کے بندے نہیں رہتے ہم اپنے ہی نفس کے غلام  بن جاتے ہیں۔
انا ہمارے نفس کا وہ حصہ ہے جو طاقت چاہتا ہےجو چاہتا ہے کہ مجھے چاہا جائے,سراہا جائے, پہچانا جائے,مانا جائے۔فیس بک ان تمام خواہشوں کے لیے بہترین جگہ ہے۔اس جگہ میرے ہر لفظ,ہرسوچ,ہر تصویر کو دیکھا سراہا اور لائک کیاجاتا ہے۔نتیجتًا میں اسی جستجو میں لگ جاتی ہوں۔پھر میرا یہ رویہ صرف انٹرنیٹ تک نہیں رہتا بلکہ میں اپنی زندگی بھی اسی طرز سے گذارنے لگتی ہوں۔کہ مجھے نوٹس کیا جا رہا ہے۔جلد ہی میں زندگی کا ہر لمحہ ایسے جینے لگتی ہوں جیسے میں بہت سے پرستاروں کی نظر میں ہوں کیونکہ میرے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ "میں اس کی فوٹو بنا کہ فیس بک پر اپلوڈ کرتی ہوں" اس کی وجہ سے آپ مسلسل ایک ایسی ذہنی حالت میں زندگی گذارتے ہیں کہ لوگوں کی نظریں آپ پر ہیں۔لوگ آپ کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ آپ ہر ممکنہ چیز فیس بک پر ڈال رہے ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ آپ میں جھوٹی انا کی تسکین پیدا کرتی ہے کہ آپ بہت اہم ہیں اور آپ کی غیر اہم باتیں بھی لوگوں کے لیے بہت اہم ہیں۔جلد ہی انسان کی "میں" اہم ترین ہو جاتی ہے۔میں بہت اہم ہوں۔میرا سٹائل میرا انداز میرا طریقہ کار سب دنیا کے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔نتیجتًا جلد ہی اس کی "میں" اس کی "ذات"اس کی زندگی کا مرکز بن جاتی ہے ۔ 
جبکہ یہ نتیجہ اصل مقصد زندگی سے بالکل الٹ ہے۔اس زندگی کا مقصد تو خدا کی عظمت کی پہچان اور اس کے سامنے اپنی بے بسی کا ادراک ہے۔اصل مقصد تو اپنے آپ کو پیچھے ہٹا کر خدا کو زندگی کا مرکز بنانا ہے۔لیکن فیس بک اس کے بالکل الٹ خیالات کو مسلسل پالتا ہے۔فیس بک یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ آپ اہم ہیں اس لیے آپ کی ہر غیر اہم بات بھی قیمتی ہے اور اسکی بھی نمائش ہونی چاہئے۔اس لیے میں ناشتے میں کیا کھا رہی ہوں اور کیا سودا خرید رہی ہوں اس کی خبر لوگوں کو دینا ضروری ہے۔جب میں کوئی فوٹو اپلوڈ کرتی ہوں تو اب مجھے انتظار ہوتا ہے تعریف کا پہچانے جانے کا۔لائکس اور کومنٹس کی تعداد سے اب خوبصورتی کوناپا تولا جا سکتا ہے۔پوسٹ ڈالنے کے بعد میں لائکس کا انتظار کرتی ہوں اور "فرینڈز" (جن میں سے 80% کو ہم جانتے بھی نہیں)کی تعداد میں دوسروں سے مقابلہ کرتی ہوں
۔ زیادہ کی حرص اور مقابلے کو قرآن پاک اس طرح واضح کرتا ہے
"اَلھٰکُم التَکاثُر" تمھیں غافل کیے رکھا بھتات کی طلب نے" (قرآن 102:1) 
مقابلہ چاہے دولت کے انبار کا ہو یا فیس بک کے فرینڈز اور لائکس کی تعداد کا ہو نتیجہ ایک سا ہے۔ہم غافل ہو جاتے ہیں۔
ایک اور خطرناک سوچ جس کو فیس بک بڑھاوا دیتا ہے وہ ہے "لوگ کو توجہ کا مرکز بنانا"۔ لوگ کیا کر رہے ہیں,کیا سوچ رہے ہیں, کیا پسند کر رہے ہیں"لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں" فیس بک میرے بارے میں لوگوں کی رائے کو مجھ پر حاوی کر دیتا ہے۔جلد ہی میں لوگوں کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی بن جاتی ہوں اب میری حیثیت میری تکلیف میری خوشی میری قدروقیمت میری کامیابی میری ناکامی کا فیصلہ لوگ کرنے لگتے ہیں۔اس کٹھ پتلی کی زندگی میں میرا اچھا اور برا ہونا لوگوں کے ہاتھ میں ہے جب لوگ مجھ سے خوش ہیں تو میں اچھی ہوں ,اور جب نہیں خوش تو میں بُری ہوں۔میں کیا ہوں اس کا فیصلہ لوگ کرتے ہیں۔میں ایک قیدی ہوں جس نے اپنی خوشی ,غمی,مایوسی اور سکون کی چابیاں لوگوں کو تھما دی ہیں۔
خدا کیا  غلامی میں خدا کی رضا یا ناراضگی, سزا یا جزا کا سکّہ چلتا ہے۔لیکن لوگوں کی غلامی میں تعریف یا تنقید کا سکّہ چلتا ہے۔جب میں خدا کی بجائے لوگوں کی غلامی کرتی ہوں تو پھر اتنا ہی ان  سکوّں کی لالچ میں اضافہ ہوتا ہے۔اور جتنامزید حاصل کرنے کا لالچ بڑھتا ہے اس سے زیادہ اسے کھونے کا خوف بھی بڑھتا ہے۔ مثلًا جیسے Monopoly کھیلتے ہوئے میں زیادہ سے زیادہ پیسے بنانے کا لالچ کرتی ہوں اور اس گیم میں امیر ہو کر اچھا محسوس کرتی ہوں لیکن جب کھیل ختم ہو جاتی ہے تو کیا فائدہ اس پیسے کا ۔اصل زندگی میں ,میں اس سے کچھ نہیں خرید سکتی۔
لوگوں کی تعریفیں بھی Monopoly کے پیسوں کی طرح ہیں۔جب مل رہے ہوتے ہیں تو خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن جب کھیل ختم ہو جاتا ہے تو بے قیمت ہو جاتے ہیں۔اس دنیا اور اگلی دنیا میں یہ سب بے قیمت ہیں۔لیکن پھر بھی میں اس کی پجاری ہوں۔اس طرح میں شرکِ خفی(چھپا ہوا شرک): ریاء(دکھاوے کی عبادت) کی مرتکب ہو جاتی ہوں۔ذہنی طور پر لوگوں کا غلام ہونے کی وجہ سے ہم ریاء کے شکار ہوتے ہیں۔جتنی زیادہ یہ غلامی بڑھتی جائے گی اتنی ہی لوگوں کی رضامندی ,لوگوں کی رائے ,لوگوں کی نظر میں عزت اور لوگوں کی تعریف حاصل کرنےکی کوشش  میں میری زندگی خرچ ہوتی جائے گی۔اور اتنا ہی مجھ میں ان سب کو کھونے کا خوف بڑھتا جائے گا۔
جتنا خوف بڑھے گا اتنی ہی میری زندگی اور سوچ غلامانہ ہوتی جائے گی۔اصل آزادی صرف اللہ کے سوا ہر شے ہر خوف سے نجات کا نام ہے۔ایک بہت واضح حدیث پاک میں بیان ہے کہ ایک شخص
رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیں کہ اللہ بھی مجھ سے خوش ہو جائے اور بندے بھی۔آپ ﷺ نے فرمایا :" اپنے آپ کو دنیا سے الگ کر لو اللہ تم سے محبت کرے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے خود کو اس سے الگ کرلو تو لوگ بھی تم سے محبت کریں گے"(ابن ماجہ) 
یعنی معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے جتنا ہم لوگوں کی توجہ اور محبت سے بے نیاز ہوں گے اتنی ہی توجہ لوگ آپ کو دیں گے۔جب ہم لوگوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑیں گے تو وہ آپ کی طرف آنا شروع ہوں گے۔یہ حدیث یہی سکھاتی ہے کہ دنیا کی غلامی چھوڑنے سے  خالق اور مخلوق دونوں کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
اب جبکہ فیس بک ایک طاقتور ہتھیار ہے تو اسے اپنی آزادی کے لیے استعمال کریں نہ کہ اپنی ذات کی پیمائش اور ذہنی غلامی کے لیے۔

Comments