واپسی کا سفر

 



میں یہ ایک نیک شخص کے جنازے سے واپسی پر کار میں بیٹھے ہوئے لکھ رہی ہوں ۔اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی ان کے اور ان کے گھر والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ فرماۓ آمین ۔
ہم نے ایک شخص کو دفنایا اور زندہ لوگوں کے قافلے کے ساتھ گھروں کو لوٹے۔ فی الحال۔
فی الحال آپ اور میں زندہ لوگوں کے قافلے میں شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری منزل کہیں اور ہے یا ہم نے مرنا نہیں بلکہ ہم بھی مرنے والوں کے سفر میں شامل ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ہم سے آگے ہیں اور ہم انہی کے پیچھے پیچھے جا رہے ہیں۔ہمارا سفر جاری ہے۔فی الحال جنازے سے واپسی پر ہم اپنی گاڑیوں میں اپنے گھروں ،اپنے T.V, اپنے بستر ، اپنی نوکری، اپنے امتحان، اپنے دوستوں ،اپنے فیس بک اور واٹس ایپ کی طرف جا رہے ہیں۔فی الحال ہمارا سفر اس دھوکے کی زندگی، خودساختہ خداؤں ، اور اصل مقصد سے دور کرنے والی فریب زدہ دنیا کی طرف ہے۔ لیکن یہ ہمارا اصل سفر نہیں ہے ۔ہمارا اصل سفر اس منزل کی طرف واپسی کا سفر ہے جہاں سے ہم آۓ تھے۔ہم سب وہاں جا رہے ہیں جہاں وہ نیک شخص گیا۔ہماری منزل وہی ہے بس یہ معلوم نہیں کہ کس کو کتنا وقت لگے۔
ہم سب خدا کے پاس سے آۓ تھے اور اسی کے پاس واپس جانا ہے کیونکہ وہی الاوّل ہے وہی الآخر ہے۔
ہمارا جسمانی وجود صرف ایک سواری ہے جب ہم اپنی منزل پر پہنچیں گے تو یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے گا بالکل ویسے ہی جیسے آج اس نیک شخص کے ساتھ ہوا۔ہمارا جسم مٹّی سے بنا تھا پھر واپس مٹّی کے سپرد ہو جاۓ گا۔ یہ وجود صرف ہماری روح کا لباس ہے۔ تھوڑی دیر کا ہمسفر ۔واپسی پر ہم یہ لباس یہیں اس دنیا میں چھوڑ جائیں گے۔ واپسی اپنے اصل گھر کی طرف واپسی۔اسی لیے جب اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نیک روح کو بلاتے ہیں تو کہتے ہیں “ارجعی “ واپس لوٹو”(قرآن 89:28)
جس مثالی خوبصورت روح کو آج ہم نے دفنایا وہ زندگی سے رخصت نہیں ہوئے بلکہ خدا کی رضا سے زندگی کے اونچے درجے پر فائز ہو گئے۔وہ اپنے اصل گھر پہنچ گئے۔ لیکن ان کا جسمانی وجود اس دنیا کا تھا اسی لیے اسے یہیں چھوڑ کر جانا تھا۔جسم کا تعلق اس ادنٰی سطح کی دنیا سے ہے جہاں اس کی ضرورت خوراک ،لباس ،رہائش وغیرہ ہے۔یہ کھاتا ،سوتا ،روتا،خون بہاتا ہے اور مرتا ہے۔ 
جبکہ روح کا تعلق اعلٰی دنیا سے ہے اور اس کی ایک ہی ضرورت ہے خدا سے محبت۔ 
اس لیے جب دنیا میں جسم روتا ہے،اس کا خون بہتا ہے یا درد محسوس کرتا ہے تو روح اس سے لا تعلق رہتی ہے۔روح کو صرف ایک شے زخمی کرتی ،درد دیتی ہے تکلیف دیتی ہے۔جب اسے خدا سے دور کیا جائے ۔جب اس کا تعلق خدا سے توڑا جائے تو وہ اس کے لیے موت ہے۔ اس لیے جو روح اپنے اصلی گھر واپس لوٹ جائے اس کے لیے رونا نہیں چاہیے۔کیونکہ وہ مری نہیں۔بلکہ رونا تو ان کے لیے چاہئے جن کے وجود تو زندہ ہیں لیکن خدا سے دوری کی وجہ سے ان کی روحیں مر چکی ہیں 
اس لئے نیک روحیں اس زندگی میں بھی اپنے اصلی گھر کی طرف کوشش کرتی ہیں
اے میرے رب میری روح کو جاۓ امان بنا اور مضبوط قلعہ بنا دے جس کو کوئی بھی پریشان نہ کر سکے۔ایک جائے پناہ جہاں اطمینان ،سکون اور ٹھہراؤ ہو ،جو باہر  کی دنیا سے لا تعلق ہو۔جس روح کو اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے نفسِ مطمئنّۂ کہا ہے۔”اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو، اور میری جنّت میں داخل ہو جا            (قرآن 30 -89:27)

Comments