خواہشات

 

خواہشات


جب میں سترہ سال کی تھی تو میں نے خواب دیکھا کہ میں مسجد میں بیٹھی ہوں  اور ایک بچّی میری طرف آتی ہے اور پوچھتی ہے کہ جدائی 
کیوں ہوتی ہے۔میں جانتی تھی مجھ سے ہی یہ سوال کیوں پوچھا گیا۔
بچپن سے ہی میرا یہ مزاج واضح تھا سکول شروع کرنے کے دنوں میں  جب دوسرے بچّے تھوڑی  دیر بعد سنبھل جاتے تھے ۔ میں نہیں سنبھل پاتی تھی  ایک بار جو آنسو جاری ہوتے رکنے نہ نام نہ لیتے تھے۔جیسے جیسے بڑی ہوئی مجھے اپنے ارد گرد کی چیزوں کا سہارا لینے کی عادت  بڑھتی گئی۔ پہلی کلاس سے ہی مجھے پکّی سہیلی کی  ضرورت محسوس ہوئی۔سہیلیوں کے ساتھ لڑائی مجھے اندر سے توڑ دیتی تھی۔بھلانا اور معاف کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا۔ لوگ،جگہوں یادوں ، تصاویر حتٰی کہ نتائج  بھی مجھے اپنی مرضی کے چاہئے تھے۔اگر کچھ بھی  میری مرضی  یا خواہش کے مطابق نہ ہوتا تو میں غصّے سے پاگل ہو جاتی۔ ہار سہنا میرے لیے کوئی آسان  تکلیف نہ تھی۔ ایک بار کی شکست سے کبھی بھی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکتی۔کبھی کسی کو دل سے معاف نہ کر پاتی، جس کی وجہ سے تعلقات کبھی پہلے جیسے نہ ہو سکتے
شیشے کے گلدان کی طرح جِسے آپ میز کے کنارے پر رکھ دیتے ہیں جہاں ٹوٹنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔لیکن جو ایک بار ٹوٹ جاتا ہے تو پہلے جیسا نہیں جڑ سکتا
بہر حال مسئلہ نہ گلدان کا  تھا نہ اسکے بار بار ٹوٹنے کا،مسئلہ یہ تھا کہ میں ہی اسے   ہر بار میز کے کنارے پر رکھ دیتی تھی۔اپنے رشتوں سے لگاؤ  کی وجہ میں اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اُن کی محتاج  ہونے لگی تھی۔میں نے اپنے رشتوں کو اپنے اوپر اتنا حاوی کر لیا تھا کہ اپنی خوشی یا غم،تسکین یا خالی پن اپنے  احساسِ تحفظ یہاں تک کے اپنی قابلیّت اور حیثیت  کو بھی ان کی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔میرے سہارے میری حدیں مقرر کرنے لگے تھے۔سو بالکل اس گلدان کی طرح جسکا غلط جگہ پر ہونے کی وجہ سے ٹوٹنا یقینی تھا۔اپنی غلط توقعات کی  وجہ سے  میں نے اپنے  آپ کو پہ در پہ مایوسی اور شکست میں مبتلا کیا۔میں نے اپنے آپ کو ٹوٹنے کے لیے رکھ دیا تھا۔جن لوگوں نے مجھے تکلیف دی ان کا اس سے زیادہ قصور  نہیں تھا جتنا کششِ ثقل کا  گلدان توڑنے میں۔ایک  ٹہنی کا سہارا لینے کی کوشش میں جب ٹہنی ٹوٹ جائے تو آپ فزکس کے قانون کو موردِ الزام نہیں ٹھرا سکتے۔کیونکہ ٹہنی میں آپکا بوجھ سہارنے کی طاقت نہیں تھی۔انسان کو  جس سہارے کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ سہارا صرف خدائے بزرگ و برتر کی ذاتِ عظیم  سے ہی مل سکتا ہے قرآن پاک میں بتایا  گیا ہے 
“دین میں کوئی ذبردستی نہیں بے شک جدا ہو گئی نیک راہ گمراہی سے۔تو جو شیطان کو نہ مانے اور اللّہ پر ایمان لائے تو اس نے بڑی مضبوط گرہ تھامی جسے کبھی  کھلنا نہیں  اور اللّہ سنتا ہے جانتا ہے”
اس آیت  میں ایک  اہم سبق ہے کہ ایک مضبوط سہارا ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا۔صرف ایک مقام ہے جہاں سے ساری توقعات وابستہ کر سکتے ہیں۔ صرف ایک ہی رشتہ ہے جو ہماری اہمیت اور قابلیت کی حد مقرر کر سکتا ہے اور صرف ایک وسیلہ ہے جس سے ملنے والی ہر خوشی ،تحفظ ،سکون  
  دائمی اور کامل ہے۔اور وہ صرف اور صرف میرے ربِ رحیم کی ذات ِ پاک ہے۔ جبکہ اس دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہم یہ سہارے مختلف جگہوں پر ڈھونڈتے ہیں ۔کوئی اسے روشن مستقبل میں ڈھونڈتا ہے تو کوئی دولت میں کوئی اعلٰی مقام میں اور کچھ میرے جیسے ہوتے ہیں جو انہیں رشتوں اور لوگوں میں ڈھونڈتے ہیں۔                     Elizabeth Gilbert اپنی کتاب Eat Pray and Love میں خوشی کی تلاش کے سفر کو بیان کرتے ہوے کہتی ہے اس مقصد کے لیے 
اس نے پوری دنیا کا سفر کیا، رشتوں کو جوڑ توڑ کر آزمایا ،لیکن نتیجتًا اس خوشی رشتوں ، روحانیت اور اچھے کھانے میں ملی۔
میں نے بھی اپنے اندر کے خلا کو پر کرنے کے لیے زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ہی گذارا، انہی سہاروں کو آزمایا۔ 
حیرت کی بات نہیں کے مجھ سے یہ سوال پوچھا کہ جدائی کیوں ہوتی ہے؟ لوگ جدا کیوں ہو جاتے ہیں ؟ اس سوال میں کھو دینے کا دکھ ہے ، نا امیدی ہے ، شکست کا احساس ہے۔ جدوجہدِ لا حاصل کی تکلیف ہے۔ جب آپ سخت زمین کو اپنے ہاتھوں سے کھودنے کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجے میں مایوسی کے علاوہ اپنی انگلیاں بھی تڑوا بیٹھتے ہیں ۔ میں نے یہ سبق کسی کتاب یا درویش سے نہیں سیکھا بلکہ زندگی میں بار بار آزمایا ہے۔ 
سو اس بچی کا سوال میرے اندر کی آواز تھی یہ سوال میں بار بار اپنے آپ سے پوچھتی تھی۔
Reclaim your heart chapter 1 continues...
بہر حال سوال کا تعلق اس دنیا کی فطرت سے تھا جو عارضی اور نامکمل ہے۔ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں جو لوگ آج آپ کے ساتھ ہیں کل دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔یہ حقیقت ہمیں تکلیف دیتی ہے کیونکہ یہ ہماری خواہش کے خلاف ہے ہمیں دائمی اور کامل کی خواہش اور تلاش ہے ہم جس سے محبت کریں اسے ہمیشہ کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں. جبکہ دنیا کی ہر چیز عارضی ہے۔ 
ہمارا پہلا اور اصلی گھر  جنّت ہے ۔ایسی جگہ جو دائمی ،کامل، اور بے مثال ہے۔ جنّت کی جستجو ہماری تخلیق کا حصہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم اُسے اس دنیا میں تلاش کرتے ہیں اور اس دنیا کو دائمی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش نے اینٹی ایجنگ anti-aging کریم اور خطرناک سرجری کی انڈسٹری ایجاد کر لی ہے اس دنیا سے چمٹے رہنے کے لیے اتنے بیتاب ہیں کہ اس دنیا کی فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں جو نہ یہ ہے اور نہ ہی ہو گی۔اس لیے اگر ہماری تمام امیدوں کا مرکز دنیا ہو تو ہمیں بار بار     نا امیدی سہنا پڑے گی کیونکہ دنیا کا مطلب ہے ایسی جگہ جہاں ہر چیز کی فطرت نامکمل اور عارضی ہے جو کہ ہماری تلاش اور جستجو کے بر خلاف ہے۔ 
اللّہ نے ہمارے اندر کامل اور دائمی کی خواہش رکھی ہے اسکو ناپائیدار چیزوں میں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے صحرا میں سراب  کے پیچھے بھاگنا اس کی تکلیف ایسی ہی ہے جیسے پکّے فرش کو ہاتھوں سے کھودنا۔ ایسی امید لگانے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے آگ سے پانی حاصل کرنے کی امید۔ نتیجتًا جلنا آپکا مقدر ہے۔
جب ہم اس دنیا سے امیدیں لگانا چھوڑیں گے اور اس دنیا کو جنّت میں بدلنے کی خواہش چھوڑیں گے صرف اس وقت زندگی سے دکھ اور مایوسی رخصت ہو گی۔
ہمیں اس چیز کا احساس بھی ہونا چاہئے کہ کچھ بھی بے مقصد نہیں ہوتا ۔ کچھ بھی ۔ یہاں تک کہ دل کا دکھنا بھی ۔ درد ایک طرف تو ہمیں سبق دیتے ہیں اور دوسری طرف خبردار کرتے ہیں ۔ یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ کچھ گڑ بڑ ہے ، خبردار کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ جسطرح جلنے کا احساس ہمیں بتاتا کہ ہاتھ کو آگ سے دور کر لینا چاہئے اسی طرح جذباتی تکلیف ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں علیحدگی کی ضرورت ہے۔  درد آپ کو علیحدگی کی ترغیب دیتا ہے ۔ جیسے کوئی پیارا بار بار تکلیف دے یا دنیا بار بار دُکھی کرے تو آخرکار آپ کے جذبات مر جاتے ہیں۔ اور اسکے لئے ہماری محبت ختم ہو جاتی ہے۔ 
دکھ ہمارے سہاروں کی بھی نشاندہی کرتے ہے جو ہمیں رُلاتے ہیں ، ہماری تکلیف کا باعث بنتے ہیں جن سے ہم نے جھوٹی امیدیں لگا رکھی ہوتی ہیں وہ امیدیں جو ہمیں صرف خدا سے لگانی چاہئیں تھیں ۔اس طرح یہ دنیاوی سہارے ہمارے اور خدا کے درمیان جذباتی روکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ اس حالت سے نکلنے کا فارمولہ قرآن پاک بیان کرتا ہے
“ اللّہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ (قرآن ۱۳:۱۱)
Reclaim your heart chapter 1 part 2
سالوں سے ایک ہی طرح سے بار بار دل ٹوٹنے، ناامیدی اور مایوسی سے میں نے ایک بہت گہری بات سیکھی
ہمیشہ سے میرا خیال تھا کہ دنیا کی محبت کا مطلب ہے مادہ پرستی، چیزوں سے محبت۔ جبکہ میں کبھی بھی مادہ پرست نہیں تھی ۔ مجھے تو لوگوں سے محبت رہی ،یادیں اور جذبات میری کمزوری رہے ۔سو میرا خیال تھا دنیاوی محبت کا قانون مجھ پر لاگو ہی نہیں ہوتا ۔لیکن مجھے اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ لوگوں یادوں اور جذبات کا تعلق بھی تو اسی دنیا سے ہی ہے۔ایک بات جس کا مجھے احساس نہ رہا کہ جتنے درد میں نے سہے ہیں اس کی صرف اور صرف وجہ دنیاوی محبت ہے۔
جیسے ہی میں نے اس بات کو سمجھنا شروع کیا میری آنکھوں سے پردے اٹھنے لگے مجھے اپنے مسئلے کی سمجھ آنے لگی ، مجھے اس دنیا سے وہ توقعات ہیں جو کہ یہ نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے یعنی perfect,کامل،مکمل۔
اپنی آئیڈیلسٹ فطرت سے مجبور ، میں نے اپنا خون پسینہ ایک کر رکھا تھا کہ میری دنیا جنت بن جائے۔ یعنی اپنے ارد گرد لوگوں سے اونچی توقعات وابستہ کر لیں تھیں ۔اس خواہش میں کہ میری زندگی میں ہر چیز Perfect ہو مثالی ہو میں نے لوگوں سے زندگی سے حالات سے بہت سی امیدیں اور توقعات باندھ لیں تھیں ۔توقعات، توقعات توقعات ۔۔۔۔۔۔ 
اگر آپ نا خوش رہنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیں ۔ یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔
غلطی یہ نہیں کہ امیدیں وابستہ کیں ، انسان ہونے کے ناطے ہمیں کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے مسئلہ یہ ہے کہ “کس سے” امید اور توقعات وابستہ کی جائے۔
خلاصہ کلام یہ کہ میری امیدیں اور توقعات خدا سے وابستہ نہیں تھیں مجھے لوگوں سے رشتوں سے اور ذرائع اور وسائل سے امیدیں تھیں۔
میری امیدوں کا مرکز دنیا تھی نہ کہ اللّہ
سو مجھے ایک گہری سچائی کا احساس ہوا مجھے ایک آیت یاد آئی ،یہ آیت پہلے بھی کئی بار سنی تھی لیکن اب واضح ہوا کہ یہ میرے بارے میں ہے 
“ بے شک وہ جو ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی کو پسند کر بیٹھے ہیں اور اس پر مطمئن ہو گئے ہیں اور وہ جو ہماری آیتوں سے غفلت برتتے ہیں”
”(قرآن ۱۰:۱۷) 
اس سوچ نے کہ میں اس دنیا میں سب حاصل کر سکتی ہوں مجھے خدا سے ملنے کی امید سے دور رکھا۔مجھے صرف دنیا ہی چاہیے تھی لیکن دنیا سے امید لگانے کا مطلب کیا ہے اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دوستوں سے یہ امید نہ رکھیں کہ وہ آپکے اندر کے خالی پن کو دور کریں گے۔ اپنے بیوی/خاوند سے یہ توقع نہ رکھیں کہ اس میں آپکی ہر خواہش پوری کرنے کی طاقت ہے۔ اگر آپ کوئی نیکی کا کام کر رہے ہیں تو صلے کی توقع لوگوں سے نہ رکھیں، جب مشکل میں ہوں تو صرف اپنے زورِ بازو پر یقین نہ رکھیں، صرف خدا پر انحصار کریں۔ 
لوگوں کی مدد حاصل کریں لیکن یہ احساس رہے کہ کسی انسان میں طاقت نہیں آپ کو مصیبت سے بچانے کی،یہ کام صرف اللّہ کر سکتا ہے لوگ صرف ذریعہ ہیں جن کے ذریعے اللّہ تعالٰی نے آپ کی مدد کی ۔ لوگوں میں آپ کی مدد ، حفاظت اور رہنمائی کی طاقت نہیں ۔ ان تمام طاقتوں کا سر چشمہ  صرف اللّہ کی ذات پاک ہے ۔انسان تو مچھر کا پر تک نہیں بنا سکتے۔
اس لئے جب آپ لوگوں سے تعلق قائم کریں تو آپکا دل اللّہ کی طرف مائل ہونا چاہئے۔ اپنا دھیان ،پیار ،محبت اعتبار خالص اللّہ کے لیے ہونا چاہئیے۔حضرت ابراہیم نے کتنی خوبصورت بات کی
“میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے زمین و آسمان بنائے ایک اسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں”
“میں نے اپنا منہ خالص اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنائے ایک اسی کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں”
حضرت ابراہیم نے کسطرح اس نقطے کو واضح کیا ۔انہوں نے چاند سورج اور ستاروں کی مثال سے بات سمجھائی کہ یہ سب تو ایک ایک کر کے غروب ہو گئے، ان سب نے بار بار مجھے مجھے مایوس کیا۔
سو حضرت ابراہیم نے صرف اور صرف اللّہ کی طرف خالص ہو کر اپنا رخ کیا ۔بالکل اسی طرح ہمیں بھی تمام امیدیں ،تمام سہارا اور  تمام بھروسہ صرف خدائے بزرگ و برتر کی ذات سے رکھنا چاہئے۔اگر ہم نے یہ گُر سیکھ لیا تو صرف اسی صورت میں ہمارے دِلوں کو سکون کی کیفیت نصیب ہو گی۔ تب ہی ہماری زندگی کا رولر کوسٹر Roller Coaster 
سکون میں آئے گا۔کیونکہ جب ہماری اندرونی حالت کسی ایسی چیز کا سہارا لیتی ہے جس کی فطرت میں ہی نا پائیداری اور غیر مستقل  مزاجی ہے۔ تو ہماری اندرونی حالت بھی غیر مستقلی اور ناپائیداری کا شکار رہے گی۔یعنی اگر ہماری خوشی کسی ایسی شے کے ساتھ منسلک ہے جس کی کیفیت بدلتی رہتی ہے تو اس کے بدلنے کے ساتھ ہی آپ کی خوشی بھی بدل جائے گی۔ہمارا دل انجانے میں دو شدید کیفیتوں کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ہم جذباتی اتار چڑھاؤ کی کیفیات سے گذرتے رہیں گے جب تک کہ ہم کسی ایسے سہارے پر انحصار نہ کریں جو دائمی اور پائیدار ہو۔ہم اپنے فیصلوں کے معاملے میں یقینی کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ ہمارا سہارا ہی کمزور ہو۔
حضرت ابو بکر صدیق کے اس بیان میں یہ سچائی کی وضاحت چھپی ہوئی ہے جب حضرت محمد  کا وصال ہوا تو  مسلمان صدمے میں چلے گئے ۔ جبکہ حضرت محمد سے حضرت ابو بکر کی محبت مثالی تھی۔ لیکن ان کا ایمان اس بات پر مضبوط تھا کہ بھروسہ اور سہارا کرنے کے لائق صرف خدا کی ذات ہے۔ انہوں نے فرمایا
“جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد وصال فرما گئے ہیں ۔اگر تم اللّہ کی عبادت کرتے ہو تو جان لو کہ اللّہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا”
اللّہ کے ساتھ تعلق کو اپنی طاقت بنانے سے یہ سطح حاصل ہوتی ہے آپ کی کامیابی ، ناکامی اور قابلیت کا تعیّن بھی اللّہ سے تعلق پر منحصر ہوتا ہے۔
“ اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے بنایا کہ آپس میں پہچان رکھو۔بے شک اللّہ کے یہاں تم میں عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے”(قرآن ۴۹:۱۳)
ایسا کرنے سے آپ نا قا بلِ تسخیر ہو جائینگے کیونکہ جس کا آپ نے سہارا لیا ہے وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ آپ کو کوئی توڑ نہیں سکتا کیونکہ آپ کو قادر مطلق کا سہارا حاصل ہے آپ کو کبھی خالی پن محسوس نہیں ہوگا کیونکہ جو آپ کا مددگار ہے وہ دنیا و آخرت کے بیش بہا خزانوں کا مالک ہے
ماضی میں جو خواب میں نے دیکھا تھا اس میں وہ لڑکی میں خود تھی کیونکہ جو جواب اسے دیا گیا وہ سیکھنے میں مجھے کئی تکلیف دہ سال لگے 
جواب یہ تھا کہ “ کیونکہ یہ دنیا پر فیکٹ نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو پھر اگلی دنیا کیا ہوتی”

Comments