طلوع صبح

 



طلوعُِ صبح
ایک مشہور کہاوت ہے کہ سحر ہونے سے پہلے رات سیاہ ترین ہوتی ہے۔فلکیاتی طور پر سیاہ ترین رات سحر سے کافی پہلے ہوتی ہے،اور اس کہاوت میں استعارتًا استعمال ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی اس کہاوت میں کافی وزن ہے۔
اکثر ہم نے زندگی میں دیکھا ہو گا کہ برے وقت کے بعد اچھا وقت بھی آتا ہے۔ جب ہر امید دم توڑ رہی ہوتی ہے تو اچانک جہاں سے توقع بھی نہ ہو مدد مل جاتی ہے۔کیا حضرت ایّوب علیہ السلام نے سب کچھ کھو نے کے بعد پہلے سے زیادہ نہیں پایا؟
جی بالکل حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی میں ایک لمبی رات تھی اور ہم میں سے اکثر کو ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی کی لمبی رات کبھی ختم ہی نہیں ہو گی۔ لیکن اللّٰہ نے ایسی کوئی رات نہیں بنائی جس کی صبح نہ ہو۔لیکن پھر بھی ہم اکثر تکلیفوں کے آگے ہار جاتے ہیں اور ہم سے کچھ خدا سے نا امید ہو جاتے ہیں اور دینی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
لیکن جسطرح سورج طلوع ہو کر رات کا خاتمہ کر دیتا ہے اسی طرح رحمتِ الٰہی ہمارے لیے رمضان بھیجتی ہے ہمارے زندگیوں کی تاریکی دور کرنے کے لیے۔ وہ ہمارے لیے قرآن کا خاص مہینہ بھیجتا ہے کہ ہم تنہا مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے اس کا سہارا پکڑ لیں۔وہ اس مہینے کو بھیجتا ہے تاکہ اس کے ذریعے ہمارے اندر کے خالی پن کو پُر کرے، ہماری تنہائی کا علاج کرے،اور ہماری روح کی مفلسی کو دور کرے۔وہ ہماری تاریکی میں رہنمائی بھیجتا ہے تاکہ ہم روشنی تلاش کریں ۔اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
“ وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی۔ تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے۔ اور خدا مومنوں پر مہربان ہے “(قرآن 33:43)
خدا کی رحمت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس کا طلبگار ہو۔حالانکہ بڑے سے بڑے گناہگاروں کو بھی اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ امید نہ چھوڑو۔اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں 
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے”(قرآن 39:53) 
اللّٰہ تعالٰی رحمتوں کا مالک ہے اور رمضان میں رحمتوں کا نزول سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلّم رمضان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ” اس کا آغاز رحمت اس کا درمیانی حصہ معافی اور اس کا آخر  جھنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے”( ابن خزیمہ ، الصحیح) 
رمضان کا ہر لمحہ خدا کی طرف لوٹنے کا موقع ہے۔ہماری زندگی کے بیشتر حالات ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ ہمارے گناہ ہماری ذلت کا سبب بنتے ہیں۔ صرف اللّٰہ کے راستے پر ہی عزّت کی امید ہے۔اگر ہم مسلسل فجر چھوڑ رہے ہیں یا حرام سے دوری اختیار نہیں کر رہے تو خدا سے اپنے تعلق کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے اپنے آپ سے مخلص ہونا چاہئے اور سچ بولنا چاہئیے۔اور ہم یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ اس دنیا میں کوئی کامیابی، ناکامی ، حاصل  ، نقصان، ملنا نہ ملنا کچھ بھی خدا کی مرضی کے بغیر ہو سکتا ہے۔ہماری زندگی اور لوگوں سے تعلقات میں عروج و زوال کا انحصار،خدا سے ہمارے تعلق پر ہے۔
لیکن لوگوں کی طرح خدا رنجشوں کا حساب نہیں رکھتا۔سوچیں تمام گناہوں اور شرمندگیوں سے پاک اعمال نامہ۔ ایسے گناہ بھی مٹا دیے جائیں جن کا سوچ کر بھی آپ کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔رمضان وہ موقعہ ہے۔حضرت محمد صلَّ اللّٰہُ علیہ وسلم نے فرمایا “ جو کوئی رمضان کے روزے خالص ایمان اور اللّٰہ سے جزا کی امید میں رکھتا ہے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔(بخاری)۔
اس نادر موقع سے ہم کس طرح بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟ دو پہلو جن کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے ، ان کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ 
ہم روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟
اکثر لوگ روزہ رواج کے طور پر رکھتے ہیں۔ اور اس کے اصل مقصد سے ناواقف ہوتے ہیں۔اور کچھ کا خیال ہوتا ہے کہ روزہ آپ میں غریبوں کا احساس پیدا کرنے کے لیے ہے۔جبکہ یہ صرف روزہ رکھنے کا ایک خوبصورت نتیجہ ہے لیکن اصل مقصد نہیں جو اللّٰہ تعالٰی نے تعلیم فرمایا ہے۔اللّٰہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ “ مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو” 
(قرآن183: 2)
روزے میں اپنی جسمانی خواہشات اور ضروریات پر قابو پا کر ہم اپنے نفس کی خواہشات کو قابو کرنے اور پابند کرنے کی تربیت لے رہے ہوتے ہیں۔روزے میں بھوک اور پیاس کے وقت ہم اللّٰہ کو یاد رکھتے ہیں۔اور تمام دن اللّٰہ کے حاضر ناظر ہونے کا احساس رہتا ہے یہاں تک کہ اکیلے میں بھی ہم اپنی بھوک پیاس کو برداشت کرتے اور خدا سے ڈرتے ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جس کو زندہ رکھنے کی تربیت 30 دن کرتے ہیں ۔سارا دن محفل ہو یا تنہائی ہر گناہ سے بچتے ہیں کہ اللّٰہ تو دیکھ رہا ہے۔تاکہ سارا سال محفل کے ساتھ ساتھ تنہائی میں بھی گناہوں سے بچیں ۔ہر وقت اس بات کا احساس ہو کہ اللّٰہ مجھے دیکھ رہا ہے اور اللّٰہ کے حاضر ناظر ہونے کا یقین دل میں بس جائے۔ یہی احساس جو تنہائی میں کھانے سے بچاتا ہے وہی احساس سارا سال گناہوں سے بچاتا ہے۔اس احساس کو تقوٰی اور پرہیزگاری کہتے ہیں کہ خدا کے خوف سے کسی گناہ سے بچنا۔
روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ۔
حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا 
“ جو روزہ دار فحش گوئی اور بد اعمال نہیں چھوڑتا تو اللّٰہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں”(البخاری) حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے تنبیہ کی کہ” کچھ لوگوں کو روزے سے بھوکا پیاسا رہنے کے سوا اور تہجّد سے جگ راتے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا”(دارمی) ۔روزے کے اصل مقصد کو سمجھئے روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز نہیں بلکہ ان تمام باتوں سے پرہیز ہے جو آپ کے بہتر انسان ہونے اور بہتر زندگی ہونے کی راہ میں روکاوٹ ہیں۔رمضان ایک موقع ہے کہ ہم اپنے آپ کو رحمتِ الٰہی سے قریب کر سکیں۔ 
جس طرح سورج آ کر چلا جاتا ہے رمضان بھی آکر چلا جائے گا۔ لیکن اس سے ملنے والی برکتیں اور رحمتیں ہماری زندگی کی تاریکی دور کر دیں گی۔

Comments