تہجد میں سکون

 



رات کا ایک پہر ایسا ہوتا ہے جب ساری دنیا بدل جاتی ہے۔سارا دن ہر طرف چہل پہل اور بھاگ دوڑ ہوتی ہے۔سارا دن ذہن کام ،سکول اور گھر کی ذمہ داریوں میں الجھا رہتا ہے۔پانچ وقت نماز کے علاوہ ہمارے پاس سوچنے سمجھنے یہاں تک کہ آرام کرنے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ہم میں سے کچھ کی زندگی تو اتنی مصروف ہے کہ انہیں احساس بھی نہیں کہ ان سے کیا کچھ چھوٹ رہا ہے۔
جبکہ رات کا ایک پہر ایسا ہوتا ہے جب تمام کام ختم ہو جاتے ہیں ، ٹریفک رک جاتی ہے، اور ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔جب ہمارے گرد کی ساری دنیا سکون سے سو رہی ہوتی ہے صرف ایک ذات ہے جو آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔حدیث قدسی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ “ہمارا رب ہر رات کے تیسرے پہر سب سے نچلے آسمان پر آتا ہے اور کہتا ہے ،کیا کوئی ہے جو اس وقت مجھے بلاۓکہ میں اس کو جواب دوں؟کیا کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کی دعا قبول کروں؟ کیا کوئی ہے معافی کا طلبگار کہ میں اسے معاف کر دوں”(بخاری -مسلم)
اگر کوئی بادشاہ اعلان کرے کے وہ رات کو آپکے دروازے پر آکر آپکی  ایک خواہش پوری کرے گا تو کوئی نادان ہی ہو گا جو اس رات الارم لگا کر نہ سوۓ۔اگر ہمیں کوئی کہے کہ سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے کوئی ہمارے دروازے پر 10,000,000$ چھوڑ کر جائے گا کیا آپ اسے لینے کے لیے نہیں اٹھیں گے۔اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی خود فرما رہے ہیں کہ وہ فجر سے پہلے اپنے بندے کے قریب آتے ہیں۔ذرا سوچیں ربِ کائنات ہمیں ہم کلام ہونے کی پیشکش کر رہے ہیں ۔ ساری کائنات کا مالک ہمیں موقع دے رہا ہے اور ہم بستر میں سوئے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ربِ کائنات ہم سے پوچھتا ہے جو اس وقت مانگو گے ملے گا اور ہم سوتے رہتے ہیں۔ایک دن آئے گا جب اس دھوکے کی زندگی کا پردہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے اٹھ جائے گا ۔قرآن کہتا ہے”حقیقت میں تُو اِس (دن) سے غفلت میں پڑا رہا سو ہم نے تیرا پردۂ (غفلت) ہٹا دیا پس آج تیری نگاہ تیز ہے،(قرآن 50:22)
یعنی تو آج ہم نے تجھ سے تیرا پردہ ہٹا دیا ہے ‘ تو آج تمہاری نگاہ کتنی تیز ہوگئی ہے۔“ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے حقائق تمہارے لیے پردہ غیب میں تھے۔ وہاں تجھ سے مطالبہ تھا کہ ان حقائق پر بغیر دیکھے ایمان لائو۔ آج غیب کا پردہ اٹھا دیا گیا ہے اور اب تمہاری نظر ہرچیز کو دیکھ سکتی ہے ‘ حتیٰ کہ آج تم اپنے ساتھ آنے والے فرشتوں کو بھی دیکھ رہے ہو۔
اس دن ہم اصل حقیقت کو دیکھیں گے۔اس دن احساس ہوگا کہ دو رکعت نماز اس دنیا کی سب چیزوں سے بہتر ہے۔اس دن احساس ہو گا کتنی قیمتی راتیں ہم نے ضائع کر دیں۔
اس دن ہم رات کی ان دو رکعت کو حاصل کرنے کے لیے سب کچھ دینے کو تیار ہوں گے۔اس دن ربِ کائنات سے بات کرنے کے لیے ہم اپنی تمام دنیاوی خواہشات، منصوبے،منزلیں سب کچھ جنہوں نے ہمیں دنیا میں مصروف رکھا سب کچھ قربان کرنے کو خوشی خوشی تیار ہوں گے۔ لیکن اس دن ربِّ کائنات کچھ لوگوں سے منہ پھیر لے گا جیسے انہوں نے اس دنیا میں اس سے منہ پھیرا تھا۔
قرآن بیان کرتا ہے “وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھنے والاتھا؟اللہ فرمائے گا: اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تجھے چھوڑ دیا جائے گا۔(قرآن126 -20:125)
سورہ مؤمنون میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں”ان سے کہا جائے گا:) تم آج مت چیخو، بیشک ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گے،”(قرآن 23:65)
کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آیات کیا کہہ رہی ہیں؟یہ ایسا نہیں ہے کہ آپکے دوست نے یا رشتہ دار نے آپ کو بھلا دیا۔ یہ ربِّ کائنات کا بھلا دینا ہے جس کے بعد اس پوری کائنات میں کوئی جاۓ پناہ نہیں ملے گی۔جھنّم کی آگ میں جلنا، دوزخ کی اذیت ، کوئی سزا اس تکلیف سے بڑھ کر نہیں کہ آپ کے رب نے آپ کو بھلا دیا۔
جیسے اس سزا سے بڑی کوئی سزا نہیں ،اسی طرح اس جزا سے بھی بڑی کوئی جزا نہیں جسے رسول اللّٰہ صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان کیا “جب جنّت کے حق دار جنّت میں داخل ہوں گے تو اللّٰہ جلَّ شانہُ ان سے پوچھیں گے کیا کچھ اور ہے جس کی تمہیں خواہش ہے ؟ تو جنّتی کہیں گے آپ نے ہمارے چہروں کو روشن کیا۔آپ نے ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا کے جنّت میں داخل کیا ۔تو ان کی آنکھوں سے پردہ اٹھایا جائے گا ۔ تو جو کچھ انہیں پہلے نوازا گیا وہ خداۓ عظیم الشان کے دیدار سے اچھا نہ ہوگا (صحیح مسلم)
چنانچہ ہمیں تہجد کی اہمیت جاننے کے لیے اس دن کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ تہجد کے وقت خدا سے ملاقات آپ کی زندگی میں جو بے تحاشا سکون لاتی ہے اس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ اس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس کے زندگی پر ان گنت اثرات ہوتے ہیں۔ قیام الیل آپکی زندگی کا زاویہ بدل دیتی ہے۔ جو ذہنی بوجھ آپ کو بیمار کر رہے ہوتے ہیں وہ ہلکے ہو جاتے ہیں۔ جو مسائل آپ کی طاقت سے بڑے ہوتے ہیں ان کے حل کی امید مل جاتی۔ اور ایک بار خدا کا قرب محسوس ہو جاۓ تو آپ ہر مسئلہ لے کر دربارِ الٰہی میں حاضر ہو جاتے ہیں۔

Comments