نماز فراموش مقصد

 


نماز: فراموش مقصد
تاریخ میں انسان نے بہت سفر کیے ہیں لیکن ایک سفر کسی نے نہیں کیاسوائے ایک کے۔
ایسی سواری جس پر کبھی کوئی سوار نہ ہوا تھا،ایسا راستہ جو کسی ذی روح نےکبھی نہ دیکھا تھا،ایسا مقام جس پر کسی مخلوق کے قدم نہ پڑے تھے۔یہ ایک بشر کی بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا سفر تھا۔یہ سفر حضرت محمد صلَّی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے سات آسمانوں کا سفر تھا۔
یہ اسرآ وا لمعراج تھا 
اس سفر میں اللّٰہ تعالٰی ، اپنے محبوب پیغمبر صلَّی اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو ساتویں آسمان پر لے گئے جہاں فرشتہ جبر آئیل تک کی رسائی نہ تھی۔ حضرت محمد صلیَّ اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمینی مشن میں ہر ہدایت ،ہر حکم حضرت جبر آئیل۴ کے ذریعے زمین پر بھیجا گیا۔سوائے ایک حکم کے۔وہ حکم جو اتنا اہم تھا کہ اسے حضرت جبر آئیل  کے ذریعے، بجائے زمین پر بھیجنے کے ، اللّٰہ تعالٰی نے حضرت محمد صلیِّ اللّٰہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو آسمان پر بلایا۔
وہ حکم ہے نماز ۔حضرت محمد صلیَّ اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو پہلے 50 نمازوں کا حکم ملا۔جب اس حکم میں آسانی کی درخواست کی گئی تو اسے گھٹا کر 5 کر دیا گیا جبکہ ثواب 50 کا ہی ملے گا۔ 
اس معاملے پر غوروفکر کرتے ہوئے علماء نے یہ وضاحت پیش کی ہے کہ 50 سے 5 نمازوں تک کا معاملہ ارادتًا تھا کیونکہ اس طرح اللّٰہ تعالٰی ہمیں ہماری روزمرّہ زندگی میں نماز کا مقام بتانا چاہتے تھے۔اگر واقعی دن میں 50 نمازیں پڑھنا ہوتیں تو کیا ہوتا کیا ہمیں نماز کے علاوہ کچھ کرنے کا وقت ملتا؟؟ نہیں اور یہی سمجھانے کا مقصد ہے کہ اصل زندگی نماز ہے اور باقی سب کچھ جو ہم کر رہے ہیں وہ نماز سے کم اہم ہے۔
جبکہ ہمارا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ہم اپنے کاموں کے درمیان نماز کی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہماری زندگی نماز کے اوقات کے مطابق نہیں بلکہ ہماری نماز ہمارے کاموں کے اوقات کے مطابق ہوتی ہے۔ہم نماز چھوڑ دیتے ہیں جب ہم کلاس میں ہوں ،شاپنگ پر ہوں یا میچ دیکھ رہے ہوں تو ہمارے لیے یہ سب نماز سے زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔
یہ سب تو وہ لوگ کرتے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں ۔لیکن کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اس زندگی کے مقصد کو بالکل چھوڑ دیا ہے۔ایک بات جس کا نماز کے بارے میں ہم نے احساس نہیں کیا وہ یہ ہے کہ کسی عالمِ دین نے زنا کرنے والے کو بے دین نہیں کہا،نہ ہی کہا کہ چوری،شراب یا نشہ آپ کو بے دین یا کافر بنا دیتے ہیں۔نہ ہی قتل کرنے سے آپ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔لیکن علماء اس جیسی احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بے نمازی مسلمان نہیں ہوتا۔
ہمارے اور ان کے درمیان فرق نماز ہے جس نے نماز چھوڑ دی وہ بے دین ہو گیا(احمد)
رسول اللّٰہ نے اس انداز میں مذمت کی ہو تو سوچیں یہ عمل کتنا برا ہوگا۔اب شیطان کی حالت پر غور کریں اس نے خدا کا انکار نہیں کیا تھا ۔اس نے صرف ایک سجدے کا انکار کیا تھا ۔صرف ایک۔ اور ہم کتنے سجدوں کا انکار کرتے ہیں ۔جب بھی مؤذّن اذآن دیتا ہے، وہ ہمیں سجدے کی طرف بلاتا ہے۔ اور ہم نماز نہ پڑھ کر ان سجدوں کا انکار کرتے ہیں۔
اس انکار کی سنجیدگی کو سمجھئے اور پھر بھی ہم نے نماز کو کتنا ہلکا لیا ہے۔ نماز پہلی چیز ہے جس کے بارے میں یومِ حساب کو سوال ہوگا لیکن ہمارے لیے اہمیت کے لحاظ سے یہ سب سے آخر میں آتی ہے۔ حضرت محمد صلیَّ اللّٰہُ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ
“ قیامت کے دن پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا اگر یہ صحیح ہوئی تو انسان کامیاب ہو جائے گا۔ اگر یہ صحیح نہ ہوئی تو انسان ناکام اور نامراد ہوگا”(ترمذی)
قیامت والے دن جنّت والے دوزخ والوں سے پوچھیں گے کہ کس وجہ سے وہ دوزخ میں ہیں تو دوزخ والے جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔قرآن اس کو بیان کرتا ہے
“تمہیں کس نے جھنم میں ڈالا ؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔(قرآن 43-74:42)
ہم میں سے کتنے ہوں گے جو کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔یا ہم وقت پر نماز نہیں پڑھتے تھے یا نماز ہماری زندگی میں سب سے اہم نہیں تھی۔
ایسا کیوں ہے کہ کلاس میں ،کام پر، سوتے ہوئے آپ غسل خانے میں جانے کے لیے وقت نکال لیتے ہیں بلکہ اس کا سوچتے بھی نہیں کیونکہ نہ جانے کے شرمسار نتائج ہمارے سامنے ہوتے ہیں تو چاہے کتنا ہی اہم امتحان ہو اگر ہمیں ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو سب کچھ چھوڑ چھوڑ کر جانے کی فکر ہوگی۔
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب وہ باہر ہو کام پر یا سکول میں تو ان کے پاس نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔لیکن ان میں سے کتنے ہوں گے جو کہیں گے کہ میں کام پر یا سکول میں غسل خانے نہیں جا سکتا اس لیے ڈائپر استعمال کر لیتا ہوں ؟ یا فجر کے وقت غسل خانے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن میں نے جانے کی بجائے بستر گیلا کرنے کو ترجیح دی۔؟سچ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے کلاس ،کام ،نیند چھوڑ سکتے ہیں لیکن نماز کے کیے نہیں۔
عجیب معاملہ ہے کہ ہم اپنی جسمانی ضرورتوں کو اپنی روحانی ضرورت پر ترجیح دیتے ہیں۔ہم جسم کی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہیں گے۔لیکن ہم اپنی روح کو بھوکا پیاسا رکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ نماز روح کی غذا ہے اور اس کے بغیر روح مر جائے گی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جسم ،جس نے ختم ہو جانا ہے ،اسکی ہمیں پرواہ ہے لیکن روح جس نے ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے اس کو ہم نظرانداز کرتے ہیں۔

Comments