روح کی خواہش

 


میں ائرپورٹ پر کھڑی تھی سیکیورٹی کی لائن میں ،ہونے والے تفتیشی سوال و جواب کے انتظار میں۔تو میں نے وہاں ایک چھوٹی بچی کو دیکھا جو اپنی امی کے ساتھ تھی۔ وہ رو رہی تھی کیونکہ وہ بیمار لگ رہی تھی،اور اسکی امی پرس سے دوائی نکال رہی تھی۔مجھے بچی کی حالت پر افسوس ہو رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا۔مجھے لگا ایک معصوم پاک روح ،ایک جسم میں قید ہے اور اس جسم کو بیماری تکلیف اور درد سے گذرنا ہے۔
تب مجھے حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث یاد آئی کہ “دنیا کافر کے لیے جنّت اور مؤمن کے لیے قید ہے”(مسلم)
اور پہلی دفعہ اس حدیث کو میں نے پہلے سے مختلف انداز میں سمجھا۔میرے خیال میں کچھ لوگوں نے اس حدیث کا معنٰی سمجھا ہے کہ کافر  دنیا میں عیش کرے گا اور مؤمن حلال اور حرام کی پابندیوں کی وجہ سے دنیا کی زندگی میں لطف اندوز نہیں ہو سکے گا۔اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے مؤمن کو اگلی زندگی کا انتظار کرنا ہوگا۔ اور شائد کچھ لوگوں نے اس حدیث سے یہ مطلب سمجھا ہو کہ دنیا کافر کے لیے جنّت اور مؤمن کے لیے تکلیف دہ ہے۔
لیکن میرے خیال میں ایسا ہر گز نہیں ہے
اور اچانک جیسے مجھے اس بچی کی حالت میں اس حدیث کی حقیقت نظر آرہی ہو۔ مجھے ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے ایک روح  قید ہے جس کا تعلق بہت بہتر دنیا سے ہے جہاں کسی بیماری کا نام و نشان نہیں۔
لیکن کیا ہوتا ہے جب حالات اس کے بالکل برعکس ہوں؟ کیا ہوتا ہے جب روح اس جسم کو قید کی بجائے اپنا اصلی اور ازلی ٹھکانہ سمجھتی ہے۔؟جو اس جسم کو اپنا گھر اور جنّت سمجھتی ہے ۔کیا ایسی روح کہیں اور جانا چاہے گی؟؟ کیا ایسی روح کو بہتر جگہ کی تلاش ہوگی۔؟؟ نہیں بلکہ وہ اس جسم کو کبھی چھوڑنا نہیں چاہے گی۔اس روح میں بہتر کی کوئی تلاش نہیں ہو گی۔جب آپ پہلے سے ہی جنّت میں ہوں تو کیا آپ کو مزید بہتر کی خواہش ہوگی۔آپ جس حالت میں ہوں گے اسی میں مطمئن ہوں گے۔یہی حالت کافر کی ہے۔ اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں (قرآن 10:7)
ایک کافر روح کے لیے ناانصافی ،دکھ اور مایوسی سے بھری عارضی دنیا جنّت ہے۔ کیا آپ اس تکلیف کا تصور کر سکتے ہیں جب آپ کی جنّت میں ناکامی ،زخم اور مرنا بھی ہو اور اس کے علاوہ کسی اور جنّت کا کوئی تصور بھی نہ ہو۔
ایسا شخص جو مرنے کے بعد جنّت کی حقیقت پر یقین نہیں رکھتا وہ اسی دنیا کو جنّت بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کوشش میں وہ بہت بے صبرا ہو جاتا ہے جب حالات اس کی مرضی سے نہ چل رہے ہوں۔تو وہ بہت جلد طیش میں آ جاتا ہے اور گبھرا جاتا ہے کیونکہ وہ اس زندگی کو Perfect بنانا چاہتا ہے۔اس کی ساری امیدیں اسی زندگی سے ہیں۔اسے سب کچھ اسی دنیا میں چاہیے۔اس لیے دنیا کو پانے کے لیے ہر کوشش کرے گا۔اس کے پاس بہتر دنیا کا کوئی تصور نہیں اس لیے وہ اپنی ہر کوشش، ہر صلاحیت،ہر موقعہ اور رب کی طرف سے دیا گیا ہر انعام اس دنیا کی زندگی کو جنّت بنانے میں لگا دے گا۔حالانکہ اس دنیا میں جو تقدیر میں لکھا ہے اس سے زیادہ نہیں مل سکتا۔
ایسے لوگوں کی روحوں نے ان دنیاوی جسموں کو ہی اپنا اصل ٹھکانہ بنا لیا ہوتا ہے اور ان جسموں سے سختی سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اور ان روحوں کا ان جسموں سے الگ کرنا بہت مشکل اور تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔روح کو وہاں سے نکالنا تکلیف دہ ہے جہاں وہ اپنا بسیرا کر چکی ہوں اور اسے اپنا ٹھکانہ مان چکی ہوں۔ اس لیے کافروں کے لیے موت اذیت ناک تجربہ ہوتی ہے جسے قرآن ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے” ان (فرشتوں) کی قَسم جو (کافروں کی جان ان کے جسموں کے ایک ایک انگ میں سے) نہایت سختی سے کھینچ لاتے ہیں۔”
(قرآن 79:1)
روح کو سختی سے کھینچ کر بدن سے نکالا جاتا ہے کیونکہ روح یہ سمجھتی ہے کہ اس کو اس کے ٹھکانے سے نکالا جا رہا ہے جسے وہ اپنی جنّت سمجھتی ہے۔کیونکہ اسے بہتر جگہ کا ،اصل جنّت کا تصور  بھلا دیا گیا ہوتا ہے۔
مؤمن روح کا معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔مؤمن کی روح اس جسم کے پنجرے کی قید میں ہوتی ہے۔کیوں؟ قیدی کیسے؟ قیدی وہ ہوتا ہے جو اپنے گھر سے دور کسی جگہ پر پھنسا ہوا ہوتا ہے۔اور وہ اس قید سے نکل کر بہتر جگہ جانا چاہتا ہے۔یہ جسم، مؤمن روح کے لیے قید ہے اس لیے نہیں کہ زندگی میں بہت مشکل اور پریشانیاں ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ روح جنّت میں جانا چاہتی ہے کیونکہ اس کا گھر اس کا اصل ٹھکانہ جنّت میں ہے۔
ایک مؤمن کی دنیاوی زندگی چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو جنّت کی بے عیب زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔اس روح کی خواہش خدا سے ملاقات اور جنّت ہے لیکن دنیا کی زندگی نے اسے روک رکھا ہے۔اس کے لیے دنیا کی زندگی روکاوٹ ہے قید ہے۔ اگرچہ مؤمن کا دل اس دنیا کی جنّت کا طلبگار ہے لیکن روح کی طلب اس سے آگے کی ہے۔ روح کو اپنے ٹھکانے تک پہنچنے کی خواہش ہے لیکن وہ اس جسم کی سلاخوں کے پیچھے ایک وقت معینہ تک قید ہے۔اسے اپنے گھر جانے سے پہلے اپنی سزا کی مدت پوری کرنی ہے۔اس روح کا بسیرا اس جسم میں نہیں ہوتا۔جب سزا ختم ہوتی ہے اور قیدی کو گھر جانے کی اجازت ملتی ہے تو وہ جیل کی سلاخوں سے چپک کر بیٹھتا نہیں ہے۔اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے مؤمن کی موت کو بالکل مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔”اور ان (فرشتوں) کی قَسم جو (مومنوں کی جان کے) بند نہایت نرمی سے کھول دیتے ہیں”(قرآن 79:2)
مؤمن روح پھسل کر جسم سے نکلتی ہے۔ جیسے قیدی کی سزا ختم ہوئی اور اب اسے اپنے گھر جانے کی اجازت ہے۔یہ کافر روح کی طرح اپنے ٹھکانے سے مطمئن اور نہ جانے پر بضد نہیں ہوگی۔
اس لیے اس کو بیان کرنے کے لیے مجھے حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کی حدیث سے بہتر مثال نہیں ملی کہ بےشک یہ دنیا مؤمن کے لیے قید اور کافر کے لیے جنّت ہے۔ہم سب کو ایک ہی جگہ سے بلاوا آنا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ایسی زندگی گذارنی ہے کہ جب بلاوا آۓ تو ہم اس قید کی سلاخوں سے چمٹے رہیں یا پھر ہم نے ایسی زندگی گذارنی ہے کہ جب بلاوا آۓ تو ہمیں آزادی کا احساس ہو اور اپنے گھر جانے کی خوشی ہو۔

Comments