مصیبت میں مومن کا ردعمل

 


مصیبت میں مؤمن کا ردعمل
مسلمانوں کے لیے یہ وقت مشکل ہے۔کبھی کبھی مایوسی سے بچنا نا ممکن ہو جاتا ہے ۔اکثر سوچتے ہیں ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟جب ہم نے کچھ غلط نہیں کیا تو ہمارے ساتھ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔؟ہمارے ساتھ ایسے ملکوں میں ناروا سلوک کیسے ہو سکتا ہے جو ملک شخصی آزادی،انصاف اور مساوات پر قائم ہوۓ ہوں۔
یہ تمام سوچیں فطری ہیں لیکن ہمیں ان سے آگے دیکھنا ہوگا۔ہمیں ان وقتی حالات کے پردے کے پیچھے کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس دھند کے  پار دیکھنے کے لیے نظر پر زور دینا ہو گا۔
اس حقیقت کی قرآن و سنت میں اکثر تعلیم کی گئی ہے۔وہ بنیادی یہ تعلیم ہے کہ دنیا کی زندگی صرف امتحان ہے۔
اللّٰہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ”اس نے موت اور زندگی تخلیق کیے تاکہ آزمائے کہ کون تم میں اچھے عمل کرتا ہے اور وہ العزیز ہے الغفور ہے”(قرآن 67:2)
اس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ زندگی اور موت کے بنانے کا مقصد ہمارا امتحان ہے۔ایک لمحے کے لیے ایمرجنسی سائرن کے بارے میں سوچیں۔اس کا کیا مقصد ہے؟سائرن کا مقصد ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ کچھ نقصان دہ چیز ہونے والی ہے۔جیسے ہی ہم سائرن سنتے ہیں ہم بھگدڑ شروع کر دیتے ہیں۔ کیا ہوتا ہے جب یہ سائرن صرف آزمانے کے لیے بجایا جاتا ہے۔ ؟ جب صرف ہمارا ردِّعمل دیکھنے کے لئے آزمائشی سائرن بجایا جائے ؟
آزمائشی سائرن کی آواز بھی بالکل اصلی سائرن جیسے ہی ہوتی ہے لیکن یہ صرف آزمائشی ہوتا ہے۔یہ بالکل اصلی سائرن جیسا سنائی دیتا اور محسوس ہوتا ہے لیکن یہ صرف آزمائشی ہوتا ہے اور ہمیں بار بار یاد بھی کروایا جاتا ہے کہ یہ اصل نہیں صرف آزمائش ہے۔
اللّٰہ تعالٰی، بالکل یہی یاد دہانی ہمیں بار بار  اس دنیا کے بارے میں کرواتے ہیں۔کہ یہ دنیا دیکھنے اور محسوس کرنے میں بالکل اصلی لگے گی۔ کبھی یہ ہمیں ڈرائے گی،کبھی رولائے گی۔ اور کبھی ہمارے حوصلے پر ضربیں لگائے گی کہ ہم ہمت ہار جائیں۔ لیکن یہ زندگی اور اس کے تمام لوازمات آزمائش ہیں ۔یہ اصل نہیں ہیں ۔بالکل آزمائشی سائرن کی طرح ہماری تربیت ہو رہی ہے اس حقیقت کے لیے جو آنے والی ہے۔آزمائشی سائرن کے بعد جو حقیقت ہے اس کے تیاری کے لیے ۔
اب سوچیں کہ آزمائشی سائرن اچانک نہ ہو بلکہ اس سے پہلے ہر گھر میں اشتہار بانٹے جائیں کہ آزمائشی سائرن بجایا جائے گا۔اب ذرا غور کریں اس اطلاع پر جو اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے ہمیں دی”بے شک تمھارے مالوں اور تمھاری جانوں کے ذریعے سے تمہیں آزمایا جائے گا۔اور اھلِ کتاب اور مشرکین کی باتیں تمہیں اذیت پہنچائیں گی اگر تم صبر کرو اور اللّٰہ سے ڈرو تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں “(قرآن 3:186)
اب سوچیں کہ ان اطلاعات کے بعد ہمیں ان لوگوں کا حال بھی سنایا جائےجنہیں ہم سے پہلے آزمایا گیا تھا۔اللّٰہ کا فرمان ہے” کیا تم سمجھتے ہو کہ تم آزمائش کے بغیر جنّت میں داخل کر دیے جاؤ گے۔جیسے تم سے پہلے آزمائے گئے تھے۔وہ لوگ بدبختی اور مصیبتوں سے آزمائے گئے تھے اور اس قدر جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور مؤمنین نے التجا کی کہ اللّٰہ کی مدد کب آئے گی؟بے شک اللّٰہ کی مدد قریب ہے”(قرآن 2:214)
نا صرف سائرن نیا نہیں بلکہ اسکی نشاندہی بھی پہلے کی جا چکی ہے۔فرض کریں ہمارے ساتھ ایسا کیا جائے تو ہمارا ردعمل کیا ہو گا ہم کیا کریں گے جب آزمائشی سائرن بجایا جائے گا۔کیا ہم پریشان ہوں گے یا بھگدڑ کا شکار ہوں گے جب ہمیں معلوم ہو گاکہ سائرن تو صرف test کرنے کے لیے ہے۔
لیکن پھر بھی ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم بات سمجھنے کی ہے کہ ہمیں کون دیکھ رہا ہے؟ہمیں کس کا ڈر ہے؟ہمیں کس کے سامنے اپنا آپ صحیح ثابت کرنا ہے؟
لوگوں کے سامنے ؟زمانے کے سامنے؟ CNN کے سامنے؟ C-Span کے سامنے؟ گوروں کے سامنے؟ نہیں ۔ بالکل نہیں۔ بلکہ وہ سب آزمائش کا حصہ ہیں۔وہ آزمائش کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ہم صرف اور صرف ایک حاکم کے سامنے پیش ہوں گے۔ہمارا ہر عمل صرف الحق کے لیے ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ہم ہر وقت صرف اسی کی نظر میں ہیں صرف وہ ہی ہمارے ظاہر باطن سے واقف ہے تو صرف وہ ہی ہمارا فیصلہ کرے گا ۔
جب ہم اس بنیادی حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں تو ہمارے اندر ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔جیسے ہی ہماری سوچ کا زاویہ بدلتا ہے ہمارا ردعمل اور سوالات بھی بدل جاتے ہیں۔ بجائے یہ سوچنے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اتنی نا انصافی کیوں ہے؟ ہم سوچنے لگتے ہیں کہ میرا کیا عمل ہونا چاہیے؟ میں اس امتحان میں کیسے کامیاب ہوں؟ خدا مجھے کیا سکھانا چاہ رہا ہے؟ اس ظالم، جابر اور آزمائش کے ذریعے خدا مجھے کیا سکھانا چاہ رہا ہے؟ہم ایک قوم کی حیثیت سے کیسے اس امتحان کے ذریعے خدا کے قریب ہو سکتے ہیں؟ اللّٰہُ اکبر 
اللّٰہ تعالٰی کی آزمائشوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمیں اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ اس سے بچاو کی ترکیب بھی سکھائی جاتی ہے جو ہے صبر اور تقوٰی(خوف خدا)۔ 
اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ”بے شک تمھاری جانوں اور تمھارے مالوں سے تمہیں آزمایا جائے گا اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے اذیت آمیز باتیں سنو گے۔اور اگر تم صبر اور تقوٰی سے کام لو تو یہ بہت ہمت کے کام ہیں”(قرآن187 -3:186)
ایک اور آیت میں کسی بھی نقصان سے بچنے کے لیے انہی دونوں اجزاء پر زور دیا گیا ہے۔
“جب تمہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں برا لگتا ہے،جب تمہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور تقوٰی اختیار کرو تو ان کا مکرو فریب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔بے شک اللّٰہ کا علم ان کے عمل کو گھیرے ہوئے ہے”(قرآن 3:120)
کامیابی کے ہدایت نامے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پچھلی قوموں نے کیا عمل کیا جب ان کو آزمایا گیا۔”جب لوگوں نے ان سے کہا !ایک بڑی فوج کا لشکر تیار ہے تو ان سے ڈرو۔لیکن اس نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کیا اور انہوں نے کہا ہمارے لیے اللّٰہ کافی ہے اور وہی ہمارا محافظ ہے۔اور وہ خدا کی طرف سے کامیابی اور عزت سے لوٹے۔ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔اور انہوں نے اللّٰہ کی رضا کی پیروی کی اور اللّٰہ بڑے فضل والا ہے۔بے شک شیطان ہی ہے جو اپنے ساتھیوں سے ڈراتا ہے تو اس سے نہ ڈرو ،مجھ سے ڈرو اگر ایمان والے ہو۔(قرآن175 -3:173)
ایک اور جگہ اللّٰہ فرماتے ہیں “اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔”( قرآن150 -3:146)
اللّٰہ تعالٰی ہم تک پچھلوں کی کہانیاں پہنچاتے ہیں تاکہ ہم سیکھ سکیں کہ انہوں نے کیسا عمل کیا۔اور ان کا عمل یہ تھا کہ
“اللّٰہ ہمارے لیے کافی ہے۔وہ سب سے اچھا محافظ ہے”ان کا قول یہ تھا کہ “اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور زیادتیاں معاف فرما ۔ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما”ان کی توجہ آزمائش پر نہیں ہوتی تھی بلکہ آزمائش بھیجنے کے مقصد پر ہوتی تھی۔ وہ اس دنیا کے حالات کے پار خدا کی رضا کو دیکھتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ نہ صرف یہ حالات اللّٰہ کی طرف سے آئے ہیں بلکہ صرف وہ ہی ہے جو ان حالات سے ہمیں بچائے گا۔اس لیے وہ اسی سے صبر اور تقوٰی کے ذریعے التجا کرتے ہیں۔ 
سب سے زیادہ حوصلہ بڑھانے والی بات یہ ہے کہ اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی خود مؤمنین کو تسلّی دیتے ہیں اور کامیابی کا وعدہ کرتے ہیں۔”اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیں اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ عطافرمادے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کو نکھاردے اور کافروں کو مٹادے۔کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے مجاہدوں کا امتحان نہیں لیا اور نہ(ہی) صبر والوں کی آزمائش کی ہے۔”
(قرآن142 -3:139)
جب ہم اپنی زندگی کو دیکھنے کا نظریہ بدلتے ہیں تو ہماری اندر  اور باہر بہت بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اور ہمارے اعمال اور حالات کا سامنا کرنے کا طریقہ بالکل بدل جاتا ہے۔ہم سے پہلے جب نیک لوگوں پر آزمائشیں آئیں تو اس سے ان کے ایمان اور فرمانبرداری میں اضافہ ہوا۔قرآن اسکی تشریح ایسےکرتا ہے
“جب مؤمنین نے مشرکوں کی طاقت دیکھی تو انہوں نے کہا!”یہی ہے وہ جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا،اور انہوں نے جو کہا سچ کہا۔اور اس سے ان کے ایمان اور تقوٰی میں اضافہ ہوا”(قرآن 33:22)
جب تک کہ ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے اور آزمائش اور امتحان کا اصل مقصد نہیں سمجھیں گے،ہم ہمیشہ”میرے ساتھ ایسا کیسے ہوا “میں پھنسے رہیں گے۔ امتحان ایک طریقہ ہے جو ہمیں پاک کرنے ،مضبوط کرنے اور ہمارے خالق کے قریب ہونے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

Comments