مشکلات کی حقیقت

 


مجھے ابھی بھی یاد ہے میری بے بسی۔گہری مایوسی،جو اکثر خود احتسابی کی وجہ بنتی ہے،کی وجہ سے میں نے اپنے خالق کے طرف رجوع کیا اور التجا کی۔میری التجا کوئی مادی شےکی نہ تھی۔مجھے حقیقی نقدی کی ضرورت تھی۔میری کوتاہیاں مجھ پر ظاہر کی گئیں تھیں اور میں اپنے نفس کے ظلم سے آزادی چاہتی تھی۔میں بہتر انسان بننا چاہتی تھی۔سو اپنا آپ اللّٰہ کے سپرد کرکے میں نے اپنی پاکیزگی کی دعا کی۔میرا پکا ایمان تھا کہ خدا دعاؤں کا سننے والا ہے لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کب اور کیسے میری دعا قبول ہو گی۔
اس دعا کے بعد جلد ہی میری زندگی کا ایک مشکل وقت شروع ہو گیا۔اس کے دوران میں نے ہمت کی اور مضبوطی اور ہدایت کی دعا کی۔لیکن اپنی پچھلی دعا سے اسکا کوئی تعلق سمجھ نہ سکی۔وہ وقت گذرنے کے بعد اس کے بارے میں سوچنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ میں کتنی پختگی آ گئی ہے۔اچانک مجھے میری دعا یاد آئی۔اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ وہ مشکل وقت میری دعا کا جواب تھی۔
رومی کے الفاظ اس کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں”جب کوئی قالین کو چھڑی سے مارتا ہے تو اس کا مقصد قالین کی پٹائی نہیں ہوتا بلکہ وہ اس میں سے مٹّی کو نکالنا چاہتا ہے۔آپکا اندر “میں” کی مٹی سے بھرا ہے اور یہ ایک بار میں نہیں نکلے گی۔ہر سختی اور دھچکے کے بعد یہ آہستہ آہستہ دل کے اوپر سے صاف ہو گی،کبھی سوتے میں اور کبھی جاگتے میں۔”
اکثر ہم اپنی زندگی کے تجربات کے آپس کے تعلق کو نہیں دیکھ سکتے۔جب ہمیں کوئی دکھ درد دیا جاتا ہے تو ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یہ براہ راست ہماری زندگی کے کسی اور عمل یا تجربے کی وجہ یا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
کبھی کبھی ہم اپنے دکھ اور اللّٰہ کے ساتھ اپنے تعلق کے درمیان رشتے کو پہچان نہیں سکتے۔
اس دکھ اور آفت کے ہماری زندگی میں بڑے مقاصد ہوتے ہیں۔مشکل حالات ہمارے خالق کے ساتھ ٹوٹے تعلق کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں اور اسکا علاج بھی ۔
مشکل وقت ہمارے ایمان،ہمت ،حوصلے اور مضبوطی کا امتحان ہوتا ہے۔اس وقت کے دوران ہی ہمارے ایمان کی سطح ظاہر ہوتی ہے۔مصیبتیں ہمارے ایمان کے دعوؤں کا نقاب اتار پھینکتی ہیں۔برے حالات ایمان کے سچّے دعوے داروں کو جھوٹے دعوے داروں سے الگ کر دیتےہیں۔
اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں “ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو اس بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا؟ہم نے ان سے پہلے لوگوں کا بھی امتحان لیا اور اللّٰہ سچّوں کو جھوٹوں سے الگ کر کہ رہے گا”(قرآن3 -29:2)
پریشانیاں ہمارا امتحان ہوتی ہیں ۔پریشانیاں رحمت اور اللّٰہ کی محبت کی نشانی بھی ہو سکتی ہیں۔حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے “جب اللّٰـہ کسی کے لیے اچھا چاہتا ہے تو اسے پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے(بخاری)
اکثر لوگوں کے لیے یہ بات قابلِ فہم نہیں کہ مصیبت کیسے اچھی ہو سکتی ہے۔اکثر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ پریشانیاں آپ کو خدا سے قریب کرتی ہیں اور آپ کو گناہوں سے اور نفس کی آلائش سے پاک کرتی ہیں۔ کیا ہوتا ہے جب مغرور شخص حالات کے سامنے بے بسی محسوس کرتا ہے؟ کیا ہوتا ہے جب انسان سمندر کے عین درمیان طوفان کا شکار ہوتا ہے؟؟ کیا ہوتا ہے جس بحری جہاز پر بڑا بھروسہ ہو وہ ٹائٹینک(Titanic ) کی داستان بن جاتا ہے؟ 
یہ بدقسمتی کی علامتیں اصل میں خطرے کی گھنٹی ہیں۔یہ ہمیں جھنجھوڑتی ہیں ، ہمیں عاجز کرتی ہیں اور ہمیں خدا کے سامنے اپنی اوقات یاد دلاتی ہیں۔اور اس طرح یہ ہمیں ہماری لاپرواہی ،ہمارے دھوکے فریب، اور ہماری آوارہ مزاجی کی غفلت سے نکال کر ہمیں اپنے خالق کے سامنے لے آتی ہے۔مصیبتیں ہماری آنکھوں پر پڑا آسائشوں کا پردہ ہٹا دیتی ہیں اور ہمیں یاد کراتی ہیں کہ ہم کون ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں
اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے “ہم نے انہیں اچھے اور برے وقت سے آزمایا کہ شاید وہ لوٹ آئیں”(قرآن7:168)۔ایک دوسری آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے واضح کیا “جب بھی ہم کسی علاقے میں کوئی نبی بھیجتے تھے تو اس علاقے کے لوگوں کو تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کر دیتے تھے کہ وہ عاجزی سیکھیں۔(قرآن 7:94)
عاجزی و انکساری انسان کی روح کو پاک کرتی ہیں اور اللّٰہ تعالٰی مؤمنین کو قرآن میں تسلّی دیتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں ان کے دکھ ان کی عزّت اور درجات میں بلندی کا باعث ہیں۔اللّٰہ کا فرمان ہے”اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو تم سے پہلے اسی طرح کی تکلیف انہیں بھی پہنچ چکی ہے،یہ دن ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللّٰہ ایمان والوں کی پہچان کرادے اور کچھ کو شہادت کے درجے پر فائز کرے اور اللّٰہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ”  (قرآن142-3:140)
نفس کی پاکیزگی کے لیے اسی جنگ کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی خدا کی راہ میں درجے ملتے ہیں۔یہ قربانی سے شروع ہوتی ہے اور اس کی راہ میں جدوجہد ہے۔یہی وہ راستہ ہے جو خدا نے واضح کیا ہے جب فرمایا ہے کہ”اے انسان تو مشقت پہ مشقت برداشت کرکے اپنے رب کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک دن تو اس سے جا ملے گا”(قرآن84:6)

Comments