محرومی کی حکمت

 


کل میرا 22 مہینے کا لاڈلا اپنی خودمختاری کا مظاہرہ کر نا چاہ رہا تھا جب وہ کار سیٹ سے اتر کر بڑوں کی طرح خود کار کا دروازہ بند کرنا چاہتا تھا،اسلیے میں وہاں کھڑی ہو کہ دیکھتی رہی کہ کہیں  بے دھیانی میں اس کا سر دروازے میں نہ آ جائے۔میں نے اسے اٹھا کہ پیچھے کیا اور دروازہ خود بند کر دیا۔یہ تو اسے بہت برا لگا اور وہ زور زور سے رونے لگا۔کہ جو وہ کرنا چاہ رہا تھا میں نے اسے نہیں کرنے دیا۔
اس چیز کو دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب خیال آیا۔مجھے وہ تمام چیزیں یاد آئیں جو ہم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں نہیں لینے دیں۔مجھے وہ تمام وقت یاد آئے جب ہم بڑے اسی طرح غم و غصے کا شکار ہوئے جب ہمیں زندگی میں وہ شے نہ ملی جسے حاصل کرنے لیے ہم بیتاب تھے۔اور پھر اچانک ،سب کچھ واضح ہو گیا۔میں نے اپنے بچّے کو صرف اس لیے ہٹایا کیونکہ میں اس کو بچانا چاہتی تھی۔لیکن اسے اس کی سمجھ نہ تھی۔اپنا غم مناتے ہوئے اسے اس بات کا احساس بھی نہیں تھا کہ دراصل میں نے اسکی حفاظت کی ہے۔ اور بالکل جسطرح میرا بیٹا اپنی نادانی اور معصومیت میں رویا،اکثر ہم بھی ایسی چیزوں کے لیے رو رہے ہوتے ہیں جن سے اصل ہمیں بچایا گیا ہوتا ہے۔
جب ہم فلائیٹ مِس کر دیں،نوکری چلی جائے، جس سے چاہتے تھے اس سے شادی نہ ہو،کیا ایسے موقعوں پر ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے لیے اس میں کچھ بہتری ہو گی؟؟ 
اللّٰہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتے ہیں “شائد تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو۔اللّٰہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے”(قرآن 2:216)
لیکن حالات کی دوسری طرف دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔خیال سے آگے کے سچ کو سمجھنے کے لیے بہت مضبوطی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح میرا بیٹا یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ اس کی مرضی کی چیز  سے پیچھے ہٹا کہ دراصل میں اسی کی پرواہ کر رہی ہوں۔کبھی کبھی ہم بھی اتنے ہی اندھے ہوجاتے ہیں۔ 
نتیجتًا ہم اپنی زندگی کے بند دروازوں کے باہر آس لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور کھلے دروازوں کی تلاش بھول جاتے ہیں۔جب ہم اس سے شادی نہیں کر پاتے جس سے چاہتے ہیں تو ہم اپنے اندھے پن میں اس کو بھی نہیں دیکھ پاتے جو ہمارے لئے بہتر ہے۔جب ہمیں نوکری نہیں ملتی یا کوئی بڑی مایوسی ہو تو ہم حالات کا بڑے پیمانے پر جائزہ لینے کی کوشش نہیں کرتے۔اکثر اللّٰہ تعالٰی ہم سے کچھ لے کر ہمیں بہتر دینا چاہتا ہے۔
یہاں تک کہ سانحہ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ کم ہی آفات ایسی ہوں جو بچے کو کھونے سے زیادہ بڑی ہوں لیکن پھر بھی یہ سانحہ بھی ہمیں ہماری حفاظت یا ہمیں کچھ بڑا عطا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا
“اگر اللّٰہ کے کسی بندے کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللّٰہ تعالٰی فرشتے سے پوچھتے ہیں “کیا تم میرے بندے کی اولاد لائے ہو؟ “
فرشتے جواب دیتے ہیں “جی ہاں “
اللّٰہ تعالٰی پوچھتے ہیں “کیا تم اس کے دل کا ثمر لے آئے ہو؟”
فرشتے کہتے ہیں “جی ہاں”
اللّٰہ تعالٰی پوچھتے ہیں”میرے بندے نے کیا کہا”
فرشتے جواب دیتے ہیں کہ “اس نے آپ کی تعریف بیان کی اور کہا ہم سب کو اللّٰہ ہی کی طرف لوٹنا ہے”
اللّٰہ تعالٰی حکم دیتے ہیں کہ “میرے بندے کے لیے جنّت میں ایک محل بناؤ اور اس کا نام ہو گا بیت الحمد( اللّٰہ کی تعریف کا گھر) 
(ترمذی)
جب اللّٰہ تعالٰی ہم سے ہمارے بچے جیسی محبوب چیز ہم سے لے لیتے ہیں تو ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے وہ ہمیں بڑی نعمت دینا چاہ رہے ہیں۔شائد یہ نقصان ہمارے جنّت میں جانے کا باعث بنے جہاں ہم اپنے اسی بچے کے ساتھ رہ سکیں۔اور اس زندگی کے بر عکس وہ زندگی ہمیشہ رہنے والی ہو گی جہاں ہمارے بچے کو نہ کوئی تکلیف ہو گی نہ خوف اور نہ بیماری۔
لیکن ہو سکتا ہےاس زندگی میں ہماری بیماری بھی وہ نہ ہو جو ہمیں دکھتی ہے۔اس کے ذریعے اللـّٰہ تعالٰی ہمیں گناہوں سے پاک کر رہے ہوں۔جب حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم سخت بخار میں مبتلا تھے تو انہوں نے فرمایا کہ 
“ کسی مسلمان کو جو تکلیف ملے حتٰی کہ کانٹے کے چبھنے کی تکلیف بھی تو اللّٰہ اس کے ذریعے سے اس کے گناہ جھاڑتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں(بخاری)
تنگ دستی کی مثال لے لیجیے ۔کوئی تنگ دست یا غریب اسے اللّٰہ کی رحمت نہیں سمجھے گا۔لیکن قارون کے آس پاس والوں نے غریبی کا شکر ادا کیا تھا۔قارون حضرت موسٰی کے دور میں ایک شخص تھا جس کو اللّٰہ نے اتنی دولت دی تھی کہ اس کی چابیاں بھی دولت شمار کی جاتی تھیں۔قرآن فرماتا ہے”وہ اپنی قوم کے سامنے سج دھج کے آیا۔جو دنیا کی زندگی کے خواہشمند تھے وہ بولے”کاش ہمارے پاس بھی یہ سب کچھ ہوتا”۔ بے شک یہ بڑا خوش قسمت ہے”(قرآن 28:79)
لیکن قارون کی دولت نے اسے گھمنڈی ناشکرا اور اللّٰہ کا نافرمان بنا دیا تھا۔اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے”اور ہم نے زمین کو حکم دیاکہ اسے اس کے گھر سمیت نگل جائے۔اور اس کے پاس اللّٰہ کے مقابلے میں کوئی مددگار نہیں تھے اور نہ ہی وہ ان میں سے تھا جو خود اپنے آپ کو بچا سکے۔اور جنہوں نے اس جیسے رتبے کی خواہش کی تھی۔ کہنے لگے
“اللّٰہ ہی اپنے بندوں میں سےجس کو چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے۔اگر ہم پر اللّٰہ کی مہربانی نہ ہوتی تو ہم بھی آج زمین میں دھنس چکے ہوتے۔کافر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے”(قرآن82 -28:81)۔قارون کا حشر دیکھ کر وہی لوگ شکر کرنے لگے کہ ان کے پاس وہ دولت نہیں تھی جو قارون کی تباہی کا باعث بنی۔
لیکن اس سبق کو سمجھنے کے لیے سب سے بہتر مثال حضرت موسٰی۴اور خضر کی کہانی میں ہے جو سورہ کہف میں بیان ہوئی ہے جب حضرت موسٰی۴ نے حضرت خضر۴ کے ساتھ دوران سفر سیکھا کہ اکثر چیزوں کی حقیقت وہ نہیں ہوتی جو نظر آ رہی ہوتی ہے۔اور سطحی طور پر دیکھنے سے ہم خدا کی حکمت کو نہیں سمجھ سکتے۔حضرت خضر نےحضرت موسٰی کے ساتھ ،دورانِ سفر کسی کی کشتی توڑ دی۔دیکھنے میں یہ عمل غریب کشتی کے مالکان کے ساتھ زیادتی لگتا ہے۔جبکہ بعد میں حضرت خضر نے وضاحت بیان کی کہ کشتی کو توڑ کر اصل میں وہ لوگوں کو بچا رہے تھے۔اور کشتی کو محفوظ کر رہے تھے قرآن پاک میں یہ اس طرح بیان ہے کہ” (خضر نے )کہا: اب ہم میں الگ ہونے کا وقت آ گیا ہے اور اب میں تمہیں بتاتا ہوں ان چیزوں کی حقیقت جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ غریب لڑکوں کی تھی میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ آگے ایک بادشاہ تھا جو زبردستی اچھی کشتیاں ضبط کر رہا تھا”(قرآن79 -18:78)
کشتی کو توڑ کر اصل میں حضرت خضر ، کشتی کو اور کشتی کے مالکان کو بچا رہے تھے۔کبھی کبھار زندگی میں بھی بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔ہمیں بچانے کے لیے ہم سے کچھ لے لیا جاتا ہے یا ہماری مرضی کے خلاف ہمیں دیا جاتا ہے۔اور ہمیں ایک 22 مہینے کے بچے کی طرح ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دروازہ بند ہو گیا ہے۔

Comments