اچھے لوگوں کے ساتھ برا کیوں ہوتا ہے

 


اچھے لوگوں کے ساتھ برا کیوں ہوتا ہے؟؟؟
یہ صرف خواب ہی تھا۔لیکن ایک لمحے کے لیے اس نے مجھے جکڑ لیا تھا۔خواب میں ہونے والی تکلیف صرف فرضی ہی ہوتی ہیں۔عارضی۔ بالکل پلک جھپکنے کے برابر۔لیکن ،مجھے خواب کیوں آتے ہیں؟ کیوں مجھے نیند میں خوف،اداسی اور تکلیف سے گذرنا پڑتا ہے؟
انسانی تاریخ میں بڑے پیمانے پر یہ سوال پوچھا گیا۔اور بہت سے لوگوں نے اس سوال کے ذریعے ایمان کی راہ پا لی اور کچھ گمراہ ہو گئے۔خدا پر ایمان،زندگی کا مقصد، تقدیر، آخرت کا ایمان اکثر اس بات پر منحصر ہے کہ کس طرح اس سوال کا جواب دیا گیا۔اس سوال سے زندگی کی حقیقت سمجھ آ جاتی ہے۔ 
ہم کیوں دکھ سہتے ہیں؟ اچھے لوگوں کے ساتھ ہی برا کیوں ہوتا ہے؟ اگر خدا واقعی ہے تو معصوم بچّے کیوں بھوک سے مر رہے ہیں اور مجرم آزاد گھوم رہے ہیں؟بہت مہربان اور نہایت رحم والا رب کیسے زیادتیوں اور نا انصافی کو ہونے کی اجازت دے سکتا ہے؟
اگر خدا واقعی مہربان اور انصاف والا ہے تو کیا اچھوں کے ساتھ صرف اچھا اور بروں کے ساتھ برا نہیں ہونا چاہئے؟
اس کا جواب ہے بالکل ٹھیک ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچھوں کے ساتھ صرف اچھا اور برا صرف بُروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ خدا واقعی انصاف کرنے والا اور انتہائی مہربان ہے۔اور اس کے علم اور حکمت میں کوئی کمی نہیں۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علم اور سمجھ میں بہت کمی ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ صرف اچھا ہوتا ہے اور برا صرف برے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری نظر میں اچھے اور برے کے کیا معنی ہیں؟ مختلف لوگوں کےلیے اچھے اور برے کی تعریف مختلف ہے۔لیکن پھر بھی ایک جامع  اور مشترکہ تعریف بھی ہے ۔مثلاً کچھ لوگوں کے لیے اپنا مقصد حاصل کر لینا یا خواہش پوری ہونا اچھا ہے اور اپنے مقصد میں ناکام ہو جانا برا ہے۔مثال کے طور پر اگر میرا مقصد وزن بڑھانا ہے کیونکہ میں بہت کمزور ہوں تو وزن بڑھنا میرے لیے اچھا ہوگا۔ جبکہ اس کے برعکس اگر میں وزن کم کرنا چاہتی ہوں کیونکہ زیادہ وزن ہونے سے میری بیماری بڑھنے کا خدشہ ہے تو وزن بڑھنا میرے لیے برا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق آپ کے مقصد سے ہے۔میرے ذاتی مقصد کو حاصل کرنا میری نظر میں اچھا ہے اور سب سے بڑا مقصد حاصل کرنا اصل کامیابی ہے
لیکن میرا مقصد ہے کیا؟
یہ سوال ہمیں اپنے وجود اور زندگی کے حقیقی مقصد کے سوال کے قریب لاتا ہے۔جب زندگی کے مقصد کی بات آتی ہے تو دنیا میں واضح طور پر دو بڑے نظریے (worldview ) پائے جاتے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ کہتا ہے کہ صرف یہ دنیا ہی حقیقت ہے، اصل مقصد اور اصل منزل یہی دنیا ہے اس لیے ساری کوششوں کا مرکز اس دنیا میں اپنی منزل حاصل کرنا ہے۔اور دوسرا نظریہ کہتا ہے کہ اس دنیا کی حیثیت ایک پل سے زیادہ نہیں اور اصل حقیقت کے سامنے دنیا کی زندگی کی حیثیت ایک جھلک کے جتنی ہے۔
پہلے نظریے کے ماننے والوں کے لیے یہی دنیا سب کچھ ہے اور انکی منزل اسی دنیا میں ہے جس کے پانے کے لیے انکی ساری جدوجہد اسی دنیا کے لیےہے۔ جبکہ دوسرے نظریے کے ماننے والوں کے لیے اس دنیا کی حیثیت صفر ہے۔ کیوں؟ کیونکہ لامحدود اور ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے سامنے اس دنیا کی زندگی کی کوئی بھی گنتی صفر کے برابر ہو جائے گی۔بس ایک جھلک یا خواب کی طرح۔
یہ دونوں نظریے ہمارے مقصد پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر کوئی یہ مانتا ہے کہ بس دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے یہاں ہی میری منزل اور میری ساری کوششوں کا مرکز ہے تو اس کا مقصد ہو گا کہ وہ اس زندگی سے بھرپور فائدہ اٹھائے اور سب کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔اس صورت میں تو واقعی ہر روز ہر وقت اچھے لوگوں کے ساتھ برا ہو رہا ہے۔اور اس سوچ کے مطابق لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خدا کا کوئی وجود ہی نہیں یا اگر خدا ہے تو نعوذ بااللّٰہ انصاف پسند نہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ برا خواب دیکھ کر نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ خدا کا وجود نہیں ۔لیکن ہم خواب کے تجربے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ بہرحال برے خواب برا اثر چھوڑتے ہیں اور کئی بار اچھے لوگوں کو بھی برے خواب آتے ہیں۔کیا ہم خواب میں انتہائی خوشی اور تکلیف کا تجربہ نہیں کرتے ؟ لیکن کیا اس سے زندگی میں کوئی فرق پڑتا ہے؟
اگر اپنی اصل زندگی کو نظر میں رکھیں تو اس زندگی کی تکالیف سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
دوسرے نظریے(اسلامی نظریے) کے مطابق اصل مقصد اس زندگی میں ساری خوشیاں اور فائدے سمیٹنا نہیں کیونکہ اس زندگی کی حیثیت خواب سے زیادہ نہیں۔ اس نظریے میں زندگی کے مقصد کا تعّین خدا کی ذات کرتی ہے “ہم نے جنّوں اور انسانوں کو نہیں بنایا سوائے اپنی بندگی کے”(قرآن 51:56)
اس جملے کی خاص بناوٹ پر غور کریں ۔یہ نفی سے شروع ہوتا ہے۔ ہم نے جنوں اور انسانوں کو کسی اور مقصد کے لیے نہیں بنایا۔ یعنی پہلے تمام مقاصد کو رد کر دیا۔ اور پھر صرف ایک مقصد دیا۔تا کہ مسلمان جان لے کہ میری زندگی کا مقصد صرف اور صرف خدا کی رضا، قرب اور محبت ہے۔ میں صرف اسی مقصد کے لیے بنا ہوں۔اس بات کی سمجھ اور یقین بے حد ضروری ہے کیونکہ پھر یہ ہمارے ایمان اور عمل کا تعین کرتی ہے۔ اسی کے ذریعے ہم اپنی زندگی میں اور ارد گرد دنیا میں ہونے والے واقعات کو سمجھ سکتے ہیں۔
اب اچھے اور برے کی تعریف کی طرف واپس آتے ہیں۔بنیادی طور پر جو شے ہمیں ہمارے مقصد سے قریب لے آئے وہ اچھی ہے اور جو ہمارے مقصد سے دور لے جائے یا مقصد کی راہ میں روکاوٹ ہو وہ بری ہے۔اس کے مطابق جن کا مقصد دنیا کی زندگی ہے ،دنیاوی نفع اور نقصان ان کے اچھے اور برے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے دولت،شہرت،رتبہ جائیداد لازمًا اچھے ہیں اور دولت ،شہرت،
رتبہ چلے جانے کا مطلب برا ہے۔ اس سوچ کے مطابق جب کسی معصوم انسان کا دنیاوی نقصان ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اچھے انسان کے ساتھ برا ہوا ہے۔لیکن یہ خیال صرف ایک ناقص دنیاوی نظریے کی پیداوار ہے۔اگر آپ نقص والے  چشمے کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو نظارے میں بھی نقص نظر آئیگا۔
دوسرے نظریے کے ماننے والے، جن کا اوّلین مقصد خدا کی رضا ہے ،جو چیز بھی ان کو اس مقصد سے قریب لے آئے وہ اچھی ہے اور جو چیز بھی انہیں اس مقصد سے دور لے جائے وہ ان کے لیے بری ہے۔اس لیے بلین ڈالر جیتنا ان کے لئے ایک مصیبت ہے اگر یہ دولت ان کو خدا سے دور لے جائے۔ اور دوسری طرف بیروزگاری ،بیماری اور پیسوں کا نقصان ایک بڑی نعمت ہیں اگر اس نقصان کے نتیجے میں ہم خدا کے قریب ہو جائیں۔ قرآن پاک میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔” شائد کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں بہتر ہو اور کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے حق میں بہتر نہ ہو۔اللّٰہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (قرآن 2:216)
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا مقصد مادی نفع یا نقصان نہیں ہی۔ہمارا مقصداس سے اونچا ہے۔ ہمیں دنیاوی لحاظ سے جوحاصل ہے اس کی اہمیت صرف اس لحاظ سے ہے کہ یہ شے ہمیں خدا سے دور کر رہی ہے یا قریب۔
میرے لیے اس دنیا کی حیثیت اس خواب سے زیادہ نہیں جو میں نے دیکھا تھا اور پھر میں جاگ گئی۔جاگنے کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ خواب اچھا تھا یا برا۔ 
حتمی نتیجہ یہ ہے کہ انصاف بالکل موجود ہے۔خدا اپنا قرب صرف اچھے لوگوں کو دیتا ہے اور بروں کو اپنے سے دور کر دیتا ہے۔سب سے بڑی اچھائی اور کامیابی اس دنیا اور اگلی دنیا میں اللّٰہ کا قرب ہے۔اور یہ اچھائی صرف اچھے لوگوں کو حاصل ہے۔اسی لیے حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “مؤمن کا معاملہ عجیب ہے،اس کے لیے ہر شے میں اچھائی ہے،اور یہ معاملہ صرف مؤمن کے ساتھ ہے کہ جب اس کے ساتھ کچھ اچھا ہوتا ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے جو اس کے لیے اچھا ہے اور جب کوئی آفت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے جو کہ اس کے حق میں اچھا ہے”(مسلم)
اس حدیث پاک میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی چیز کی اچھائی اور برائی کا اس کی ظاہری شکل و صورت سے تعلق نہیں۔اچھائی کا تعلق اس کیفیت سے ہے جس کا سبب یہ چیز بنی ، یعنی صبر اور شکر۔دونوں خدا کی رضا میں راضی رہنے کو ظاہر کرتے ہیں۔
اور دوسری طرف سب سے بڑی آفت خدا سے دوری ہے۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور صرف برے لوگوں کو اس آفت سے گذرنا ہو گا۔ان خدا سے دور لوگوں کے پاس دنیا کی زندگی میں جو دولت،شہرت،رتبہ اور جائداد ہے یا نہیں ہے یہ محض وقتی خیال یا خواب ہے کیونکہ ہمیشہ کی زندگی میں یہ اس سے محروم ہوں گے یا اس سے بھی برا حشر ہوگا۔
قرآن نے اس کو واضح کیا ہے”آپ کی نظریں اس طرف نہ اٹھیں جو ہم نے انہیں اس دنیا میں مال اور رونق عطا کیےہیں ،جس کے ذریعے ہم ان کا امتحان لیں گے۔آپ کے پروردگار کا رزق زیادہ بہتر اور پائدار ہے۔(قرآن 20:131)
اصل زندگی ہماری آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہو گی اور جب ہم اٌس دنیا میں جاگیں گے تو معلوم ہو گا کہ
دنیا کی زندگی تو بس خواب تھی۔

Comments