توقعات

 


جب میں بڑی ہورہی تھی تو میرا خیال تھا کہ دنیا میں ہر جگہ انصاف ہوتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ خیال غلط تھا۔میرا یقین تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ مثلًا کسی کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو اسے انصاف مل جاتا ہے۔اس سوچ کی وجہ سے مجھے چیزوں کو سمجھنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ اس دوران میں نے زندگی کی بنیادی حقیقت کو نظرانداز کر دیا تھا۔اپنی بچگانہ مثالی تصور میں ،میں یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئی تھی کہ یہ دنیا فطری طور پر ناقص ہے۔ہم انسان فطری طور پر کمزور ہیں اس لیے ہم ہمیشہ غلطیاں کریں گے۔اور ان غلطیوں میں اکثر ہم دانستہ یا غیر دانستہ طور پر دوسروں کو نقصان بھی پہنچا دیں گے۔دنیا میں ہمیشہ سب کچھ صحیح نہیں ہو سکتا۔
کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم نا انصافی کے خلاف اور سچ کے حق میں کوشش کرنا چھوڑ دیں؟نہیں بالکل نہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم دنیا اور دوسروں کے بارے خیالی معیار اور ناممکن توقعات نہ رکھیں۔لیکن ایسا کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ہم اس ناقص دنیا میں کیسے رہ سکتے ہیں جہاں لوگ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں اور ہمارے اپنے ہی ہمارا دل توڑتے ہیں ؟اور شاید سب سے مشکل یہ کہ دھوکہ کھانے کے بعد آپ اس شخص کو معاف کیسے کر سکتے ہیں۔؟ہم سنگ دل ہوئے بِنا مضبوط کیسے ہو سکتے ہیں اور کمزور ہوئے بغیر با اخلاق اور نرم مزاج کیسے؟ کب تک یاد رکھنا ہے اور کب بھول کر آگے بڑھ جانا ہے؟ کب خیال رکھنا حد سے زیادہ ہو جاتا ہے؟ اور کیا محبت میں حد پار ہوتی ہے؟
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں اپنی زندگی کا غور سے معائنہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ تکلیف سہنے والے ہم پہلے انسان ہیں یا آخری۔ ہمیں انہی حالات سے گذرنے والوں کی کوششوں اور کامیابیوں پر غور کرنا چاہئے۔اور ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ ہم درد سے بچ کر آگے نہیں بڑھ سکتے اور کامیابی کوشش کے بنا ناممکن ہے۔اور اکثر یہ کوشش دوسروں کے پہنچائے ہوئے نقصانوں کو برداشت کرنا اور ان پر قابو پانا ہوتی ہے۔
اگر اس لمحے ہم اپنے پیغمبر کی روشن مثال سامنے رکھیں تو ایسے حالات میں ہمیں اپنا آپ اکیلا محسوس نہیں ہو گا۔یاد رکھیں حضرت نوح ۴ کو ان کی قوم نے 950 سال تک تنگ کیا.قرآن پاک فرماتا ہے”ان سے پہلے انہوں نے ہمارے بندے نوح کو جھٹلایا اور کہا یہ مجنون ہے اور وہ خوف زدہ تھے” (قرآن9 :54) حضرت نوح۴ کو اس قدر اذیت پہنچائی گئی کہ بالآخر وہ بول اٹھے”یا اللّٰہ میں مغلوب ہوں تو ہی میری مدد فرما” 
(قرآن 54:10)
یا ہمارے سامنے حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کی مثال ہے کہ ان پر پتھراؤ کیا گیا اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ کو زدوکوب کیا گیا ۔ یہ سب ظلم لوگوں کے ہاتھوں ہوئے۔یہاں تک کہ فرشتوں کو بھی انسان کی تخلیق سے پہلے انسان کی اس فطرت کی سمجھ تھی۔جب اللّٰہ تعالٰی نے فرشتوں کو انسان کی تخلیق کے بارے میں بتایا تو ان کا پہلا سوال انسان کی فطرت میں  فساد اور تخریب کے بارے میں تھا۔اللّٰہ تعالٰی نے فرشتوں سے فرمایا” میں دنیا میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔انہوں نے کہا کیا آپ اسے بنائیں گے جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا” (قرآن 2:30)
انسان کی ایک دوسرے کے خلاف خطرناک جرائم کرنے کی فطرت نے اس زندگی کی حقیقت کو افسوسناک بنا دیا ہے۔لیکن اب بھی ہم میں سے بہت سے خوش قسمت ایسے ہیں جن کو زندگی میں ان آفات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس سے ان کے ارد گرد لوگ گذر رہے ہیں۔
کسی ایک شخص پر حد سے زیادہ بھروسہ، امید اور اعتبار کرنا بے وقوفی ہے۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انسان خطا کار ہے۔سارا اعتبار، سارا بھروسہ اور امید صرف خدا کی ذات سے رکھنا چاہئے۔اللّٰہ کا فرمان ہے “ جس نے برائی کو ترک کیا اور اللّٰہ پر ایمان لایا تو اس نے بڑی مضبوط رسی کو تھام لیا” (قرآن 2:256)
اس یقین کے ساتھ کے اللّٰہ پر ایمان وہ رسی ہے جو ہر طرح کے حالات سے آپ کو خیریت سے نکال لے گا 
اب یہ بھی نہیں کہا جا رہا ہےکہ بالکل ہی محبت نہ کی جائے یا کم کی جائے،بلکہ کس طرح کی جائے یہ اہم ہے۔سب سے زیادہ گہرا تعلق صرف اللّٰہ سے ہونا چاہئے۔ہمارے دل میں صرف اللّٰہ ہی ہونا چاہئے۔اور اللّٰہ کے سوا کسی کو بھی اپنی زندگی کا  مرکز نہیں بنانا چاہئے کہ اس کے بغیر ہم اپنی زندگی جاری نہ رکھ سکیں۔ اس طرح کی محبت اصل میں محبت نہیں بلکہ پرستش یا پوجا بن جاتی ہے جس کا نتیجہ درد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اگر سب کچھ کرنے کے باوجود دکھ اور دھوکے مل رہے ہوں؟ جو کہ لازمی طور پر ہوتا ہے۔ تو کیسے مشکل فیصلے کیے جائیں ؟ کیسے معاف کرنا سیکھا جائے؟ کیسے ہم اپنے زخموں کو سی کر انہی لوگوں سے اچھائی کریں جو اب بھی ہم سے مخلص نہیں؟
حضرت ابو بکر رض کی کہانی میں بالکل اسی مسئلے کی مثال ہے۔ جب آپ کی بیٹی حضرت عائشہ رض  پر تہمت کا واقعہ ہوا تو آپ کو معلوم ہوا کہ جس شخص کی آپ ماہانہ مالی امداد کرتے ہیں وہ شخص اس بدنامی پھیلانے میں آگے آگے ہے۔تو حضرت ابو بکر رض نے اس کی امداد روکنے کا فیصلہ کیا، تب اللّٰہ تعالٰی نے آیات نازل فرمائی “جن کو اللّٰہ نے عزت اور دولت عطا فرمائی ہے انہیں رشتہ داروں، مسکینوں اور مہاجرین کی امداد کے خلاف قسمیں نہیں کھانی چاہئیں ، معاف کرو اور در گذر سے کام لو کیا تم نہیں چاہتے کہ اللّٰہ تمہیں معاف کرے ۔بے شک اللّٰہ بڑا غفور و رحیم ہے”(قرآن 24:22) ان آیات کے نزول پر حضرت ابو بکر رض نے فرمایا بے شک میں چاہتا ہوں کہ خدا میری مغفرت فرمائے اور انہوں نے نہ صرف امداد جاری کر دی بلکہ اور بھی زیادہ دیا
اس قسم کی معاف کرنے اور دل صاف رکھنے کی صلاحیت مؤمن کی خاصیت ہے۔ان مؤمنین کے بارے میں اللّٰہ تعالٰی کا ارشاد ہے
“اور وہ جو کبیرہ گناہوں سے اور فواحش سے اجتناب کرتے ہیں اور جب ان کو غصہ دلایا جائے تو معاف کر دیتے ہیں” (قرآن 42:37)
دوسروں کو فورًا معاف کرنے کی صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم دوسروں کے بارے میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہوں۔
لیکن سب سے زیادہ عاجزی اس احساس کی وجہ سے آنی چاہئے کہ ہم روز اللّٰہ کی کتنی نافرمانیاں کرتے ہیں ،گناہ کرتے ہیں ۔اور اللّٰہ کے سامنے ہماری کیا حیثیت ہے؟ پھر بھی ربِ کائنات قادر و مالک ہمیں روز کتنی بار معاف کرتا ہے۔ہماری کیا حیثیت ہے کہ ہم کسی کو معاف نہ کریں؟ اگر ہمیں اپنے لیے خدا سے معافی چاہئے تو ہم کیسے دوسرے کو معاف نہ کریں؟اسی لیے حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے سکھایا” جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا”(مسلم)
اللّٰہ سے مغفرت کی امید سے ہمیں دوسروں کو معاف کرنے کی ترغیب ملتی ہے تاکہ اس مغفرت کے ذریعے ہم بالآخر اس دنیا میں داخل ہو جائیں جو مکمل اور انصاف پر قائم ہے۔

Comments