حضرت آسیہ کا ایمان

 


میں ایک کہانی جانتی ہوں جو صرف ایک کہانی نہیں اس میں ایک ایسی عورت ہے جس نے اس دنیا کی چمک دمک ٹھکرا کر محبت کی۔ اذیت اور تشدد کبھی اس کی راہ نہ روک سکے۔اس کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ وہ اپنی جان بھی دینے کو تیار تھی۔وہ ملکہ تھی لیکن اس نے تخت و تاج اور محل سے بڑھ کر کچھ پا لیا تھا ۔اس نے اپنے دنیا کے محل پر آخرت کے محل کو ترجیح دی تھی۔فرعون کی بیوی آسیہ کے لیے جنّت میں اپنے گھر کا نظارہ کوئی فرضی نظارہ نہیں تھا۔ 
اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے فرمایا”اللّٰہ تعالٰی ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے۔جب اس نے کہا اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنّت میں گھر عطا فرما اور مجھے فرعون سے اور اس کے اعمال سے بچا” 
میں نے حضرت آ سیہ رض کی کہانی متعدد بار سنی تھی اور ہر بار ان کی کہانی نے مجھے متاثر کیا تھا۔لیکن کچھ عرصہ پہلے کسی خاص وجہ سے اس کہانی نے مجھے متاثر کیا۔کچھ مہینے پہلے میں ایک خاص امتحان سے گذر رہی تھی اور نیک اور مخلص لوگوں کی صحبت بھی انمول تحفہ ہوتی ہے۔  جب آپ مشکل میں ہوں تو بس ایک میسج ،ایک فیس بک status ایک ای میل کافی ہوتی ہے اور نیک اور مخلص لوگوں کی پوری فوج آپ کے لیے دعائیں کرنے لگتی ہے۔ سبحان اللّٰہ 
سو میں نے بھی درخواست کی اس عظیم تحفے کی جو ایک انسان دوسرے انسان کو دے سکتا ہے۔ میں نے اپنے لیے دعا کی درخواست کی۔پھر جو مجھے موصول ہوا وہ میری امیدوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔میں اللّٰہ کے اس انعام کو کبھی نہیں بھولوں گی۔لوگوں نے میرے لیے تہجد میں دُعائیں کیں ، کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعائیں کیں، سفر میں دُعائیں کیں ،یہاں تک کے پیدائش کے وقت بھی دعائیں کیں ۔مجھے بہت ساری دعائیں موصول ہوئیں لیکن ایک دعا میرے دل کو لگی۔ یہ بالکل سادہ سا جملہ تھا کہ “اللّٰہ کرے آپ کو جنّت میں اپنا گھر دکھایا جائے تا کہ اس دنیا کی تکالیف سہنا آپ کے لیے آسان ہو جائے” اس دعا کو پڑھتے ہی میرے دل پر شدید اثر ہوا۔تب مجھے حضرت آسیہ رض کی کہانی یاد آئی۔ اور ایک حیرت انگیز احساس ہوا کہ حضرت آسیہ رض حد درجے کے تشدد کا شکار تھیں جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ فرعون جو اس دنیا کا سب سے ظالم انسان تھا۔وہ صرف ان کا حکمران نہیں بلکہ شوہر بھی تھا۔اور حضرت آسیہ رض کے زندگی کے آخری ایّام میں فرعون کے تشّدد میں اضافہ ہو گیا تھا۔ لیکن بہت ہی عجیب بات ہوئی کہ حضرت آسیہ مسکرائیں ،وہ دنیا کی شدید ترین اذیت میں مبتلا تھیں اور وہ اس حالت میں بھی مسکرائیں 
ایسا کیسے ممکن ہے؟ انتہائی سخت تشدد کا شکار تھیں اور مسکرائیں اور ہم ٹریفک جام یا کسی کی بری نظر کو برداشت نہیں کر سکتے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم۴ نے سب سے بڑی آفت کا سامنا کیا اور آگ انہیں ٹھنڈی لگی؟ کیوں کچھ لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور وہ ہنسی خوشی رہتے ہیں اور کچھ لوگوں کے پاس سب کچھ ہوتا ہے اور وہ کسی نہ کسی چیز کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ زندگی کے بڑے امتحانوں میں تو ہم صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن روزانہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہم سے صبر نہیں ہوتا
میرا یہ خیال تھا کہ آفات و حادثات اپنے اثرات کی وجہ سے چھوٹے اور بڑے  یا مشکل اور مشکل ترین ہوتے ہیں۔میں سمجھتی تھی کہ آفات کی ایک لسٹ ہوتی ہے ۔جس میں کچھ حادثے سب سے بڑے ہوتے ہیں جیسے کسی پیارے کی موت اور کچھ کم تکلیف دہ ہوتے ہیں جیسے ٹریفک چالان ۔ صاف ظاہر لگتا ہے
لیکن یہ ایک غلط خیال ہے
آفات سے پہنچنے والی اذیت کا ان کے چھوٹے بڑے ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اذیت کا پیمانہ کچھ اور ہے۔میں جو کچھ بھی زندگی میں مشکل یا اذیت سہتی ہوں اس کا تعلق مصیبت کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے نہیں۔بلکہ مشکل یا آسانی کا تعلق اللّٰہ کی مدد سے ہے۔ کچھ بھی آسان نہیں جب تک اللّٰہ تعالٰی اسے میرے لیے سہنا آسان نہ بنا دے۔ یہاں تک کہ ٹریفک جام یا چھوٹا سا زخم  برداشت کرنا بھی ۔اگر اللّٰہ ہمیں سہنے کی ہمت دے تو نہ کوئی بیماری، نہ موت، نہ آگ میں پھینکا جانا، یا ظالم کا تشدّد بڑی آفت ہے۔
ابن عطا اللّٰہ سکندری اس کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں “کچھ بھی مشکل نہیں، اگر اللّٰہ کے ذریعے سے اسے حاصل کیا جائے۔اور کچھ بھی آسان نہیں اگر اسے اپنے بل بوتے پر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے”
حضرت ابراہیم۴ کو آگ میں پھینکا گیا۔خدا نہ کرے کبھی کسی کو اتنی بڑی آزمائش سے گذرنا پڑے۔لیکن دنیا میں کوئی شخص نہیں جو اپنے اندر کی جذباتی،نفسیاتی اور معاشرتی آگ میں نہ جلتا ہو۔اور ایک لمحے کے لیے بھی نہ سوچے کہ خدا اس آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔حضرت آسیہ رض جسمانی طور پر تشدد کا شکار ہوئیں لیکن خدا نے ان کو جنّت میں ان کا گھر دکھا دیا۔ تو وہ مسکرا دیں۔ہماری آنکھیں اس دنیا میں جنّت نہیں دیکھ سکتی۔لیکن اگر اللّٰہ چاہے تو ہمارے دل میں جنّت کا یقین ڈال دے جس سے اس دنیا کی تکلیف سہنا آسان ہو جائے۔اور ہم بھی مشکل حالات میں مسکرانا سیکھ جائیں۔
سو مسئلہ امتحان یا آفات کا نہیں ہے مسئلہ بھوک یا سردی لگنے کا نہیں ۔مسئلہ یہ ہے کہ اس سردی اور بھوک سے بچنے کے لیے ہمارے پاس سامان موجود ہے۔ اگر ہے تو سردی اور بھوک ہمیں پریشان نہیں کر سکتے۔مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب بھوک میں کھانا نہ ہو اور سردی میں پناہ نہ ہو۔
سو اللّٰہ تعالٰی ہمیں مشکلات بھیجتے ہیں کہ ہم پاک ہو سکیں،مضبوط ہو سکیں اور خدا کی طرف رجوع کر سکیں۔ جان لیں کہ اس بھوک پیاس اور سردی کے ساتھ اللّٰہ تعالٰی خوراک پانی اور پناہ بھی مہیّا کرتا ہے۔اللّٰہ تعالٰی امتحان بھیجتا ہے لیکن اس کے ساتھ صبر اور رضا بھی عطا کرتا ہے کہ اللّٰہ کی حکمت سمجھ آئے۔اللّٰہ تعالٰی نے حضرت آدم کو اس دنیا میں بھیجا،جہاں انہوں نے مشکلات اور امتحان کا سامنا کیا۔لیکن اللّٰہ نے اپنی مدد کا بھی وعدہ کیا ہے۔قرآن بتاتا ہے کہ “اللّٰہ نے کہا، نیچے اترو، اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے۔اور جب میری طرف سے تمھارے پاس ہدایت آئے گی تو جو اس کو مانے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف اٹھائے گا”(قرآن 20:123)
حضرت محمد صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کی طائف میں دعا میری پسندیدہ ہے۔جب خون زخموں سے رِس رہا تھا تو انہوں نے اپنے رب سے التجا کی”میں تیرے چہرے کی روشنی میں پناہ مانگتا ہوں جس سے تمام اندھیرے اور دنیا اور آخرت کے تمام معاملات درست ہوتے ہیں”
بے شک اللّٰہ اپنے پیاروں کو امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور امتحان بھی ان کے ایمان کے مطابق ۔ لیکن اللّٰہ ساتھ ہی مدد بھی بھیجتا ہے۔جو امتحان کو آسان اور کسی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے۔اللّٰہ کی مدد، آخرت سے نجات اور جنّت کی خوشخبری بھی ہو سکتی ہے۔جو ہمیں مصیبتوں میں بھی مسکرانا سکھا دیں۔جن کو سوچ کر ہم سختیوں میں بھی مسکرا دیں۔

Comments