مشکلات کا حل

 


طوفان میں کھڑا رہنا آسان نہیں جیسے ہی بارش شروع ہوتی ہے بجلی بھی کڑکنا شروع ہو جاتی ہے گہرے بادل سورج کوڈھانپ لیتے ہیں اور تا حدنظر صرف سمندر کی لہریں نظر آتی ہیں جو کبھی پر سکون تھا آپ راستہ کھو دیتےہیں اور مددکےلیےپکارتے ہیں۔ سب سےپہلےآپ کوسٹ گارڈ کو بلاتے ہیں جب کوئی جواب نہیں ملتا  تو کشتی کا رخ موڑنےکی کوشش کرتے جب کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو لائف بوٹ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔جب وہ بھی نہیں ملتی تو لائف جیکٹ پہننے کی کوشش کرتے ہیں وہ پھٹی ہوئی ہوتی ہے آخر کار آپ نے ہر حربہ استعمال کر لیا ہوتا ہے تو آپ اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرتے ہیں 
اور خدا کو پکارتے ہیں
اس لمحے ایک بہت انوکھی بات ہوتی ہے آپ کو ایسا تجربہ ہوتا ہے جس کا آپ نے صرف پڑھا یا سنا ہوتا ہے 
سچی توحید اور واحدانیت کا
ساحل پر جب آپ نے خدا کو پکارا ہو گا تو اس کے ساتھ اور بہت سے سہاروں کا آسرا بھی ہوگا خدا کے علاوہ اور بہت سوں سےامید بھی ہو گی لیکن اس لمحے کسی سہارے سے کوئی امید نہیں ۔ساری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں کوئی نہیں بچا پکارنے کو۔کسی کی امید نہیں 
اور یہی بات سمجھنے کی ہے 
کیا آپ نے کبھی غور  کیا جب آپ کو سخت ضرورت ہو تو مخلوق کا ہر دروازہ بند ملتا ہے۔جب ایک دروازے پر جائیں تو وہ آپ پر بند کر دیا جاتا ہے دوسرے پرجائیں تو وہ پہلے سے ہی بند ہوتا ہے ۔آپ ایک کے بعد ایک دروازے پر جاتے ہیں ,دستک دیتے ہیں ,زور زور سے کھٹکھٹاتے ہیں ۔لیکن کوئی نہیں کھلتا خاص طور پر وہ دروازے جن پر آپ کو بہت بھروسہ ہوتا ہے۔ایسا کیوں ہوتا ہے?
ہم انسانوں میں کچھ خصوصیات ہیں جو اللّہ کے وسیع علم میں ہے۔ہم ہر وقت ضرورت کی حالت میں ہوتے ہیں اور,ہم کمزور ہیں۔ لیکن ہم جلد باز اور بے صبرے بھی ہیں۔جب ہم کسی مشکل میں گرفتار ہوں گےتو مدد کے لیے بھاگیں گے۔ یہی سارا کھیل ہے ظاہر ہے ہم پر سکون حالات میں مدد کے لیے کیوں بھاگیں گے۔ اچھے موسم میں کون پناہ مانگتا ہے ۔ ہمیں کب پناہ کی ضرورت ہوتی ہے? جب موسم برا ہو باہر طوفان ہو۔تو اللّہ تعالی طوفان بھیجتا ہے اور مدد مانگنے کے لیے حالات پیدا کرتا ہے کہ ہم مدد مانگنے کے لیے کیا کوشش کرتے ہیں 
چونکہ ہم جلد باز اور آسان پسند ہیں تو ہم مدد مانگنے کے لیے اس کےپاس جائیں گے جو سب سے زیادہ قریب اور آسان ہے۔ہم شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں ہم مخلوق میں سہارا ڈھونڈتے ہیں ہمیں جو سب سے قریب لگے ۔ اور یہی ہم دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں دنیا ہمیں قریب لگتی ہے۔دنیا کے لفظی معنی بھی سب سے نیچے ہیں ۔ دنیا ہمارے سامنے ہے اس لیے قریب لگتی ہے لیکن یہ محض  ایک خیال ہے۔
دنیا سےبھی زیادہ قریب کوئی ہے
اگر آپ سوچیں کہ آپ کے قریب ترین کیا ہے ?تو کوئی کہے گا کہ دل کوئی کہے گا میرا وجود۔لیکن اللّہ کا فرمان ہے کہ 
"ہم نے انسان کو تخلیق کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسے اس کا نفس کرتا ہے اور ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں "  اس آیت میں اللہ تعالی ہمیں بتا رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی ہماری اندرونی جنگ سے بھی واقف ہیں یہ جان کر تسلی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو ہماری اندر ہونے والی جدوجہد اور تکلیف  کو دیکھ رہا ہے۔وہ جانتا ہے کہ ہمارا نفس ہمیں کتنا بہکا رہا ہے لیکن وہ ہمارے قریب ہے وہ ہمارے نفس سے زیادہ ہم سے قریب ہے۔وہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ شہ رگ ہی کیوں کہا گیا ۔? اس رگ میں کیا خاص بات ہے ? شہ رگ دل تک خون پہنچانے والی سب سے اہم رگ ہے۔اگر یہ کٹ جائے تو تقریبا اچانک موت واقع ہو سکتی ہے۔یہ واقعتا ہماری لائف لائن ہے جس پر ہماری زندگی کا انحصار ہے۔لیکن اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ اللہ تعالی ہم سے ہماری زندگی, ہمارے وجود اور ہمارے نفس سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ ہمارے دل کو جانے والے سب سے اہم راستے سے بھی زیادہ قریب۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ "اے ایمان والو! اللہ اوراسکے رسول کی دعوت کا جواب دو,اسی میں تمہارے لیے زندگی ہے,اور جان لو کہ اللہ اس کے اور اس کے دل کے درمیان ہے اور اسی کے سامنے تم اکھٹے کئے جاؤ گے" 
اللہ سبحانہ و تعالی جانتے ہیں کہ ہمارا نفس ہے,ہمارا دل ہے,اور اللہ تعالی جانتے ہیں کہ یہ دونوں انسان پرزورچلاتے ہیں۔ اب جبکہ اللہ تعالی نے ہمیں  بتایا ہے کہ وہ ان دونوں سے زیادہ ہم سے قریب ہے تو اب جب ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سہارے پر بھروسہ کرتے ہیں تو نہ صرف اپنے لیے ایک کمزور سہارے کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ قریب کو چھوڑ کر دور والوں کے دروازے پر جاتے ہیں سبحان اللہ
اب جبکہ یہ ہماری فطرت ہے اور اللہ تعالی سب جاننے والے ہیں ,تو وہ طوفان کے دوران ہماری پناہ کے سارے دروازے بند کر کے ہماری سمت صحیح رخ  کر کے ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں کہ ہر جھوٹے آسرے کے دروازے کی دوسری طرف گڑھا ہے۔اگر ہم اس دروازے میں داخل ہو گئے تو ضرور اس میں جا گریں گے۔ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ دروازے ہم پر بند کر دیتا ہے۔
یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ ہم پر طوفان بھیجتے ہیں تا کہ ہم مدد کے لئے کوشش کریں اور یہ جانتے ہوئے کہ ہم غلط جواب کا انتخاب کریں گے, وہ ہمیں سوالوں کا انتخاب کرنے کا موقع دیتا ہے۔جن میں سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے صحیح جواب۔ یعنی مصیبت ہی آسانی ہے۔یعنی اس نے باقی سارے شارٹ کٹ اور جھوٹے سہاروں کو نکال کر امتحان اور انتخاب آسان کر دیا 
سچ ہے
طوفان میں کھڑا رہنا آسان نہیں,یہی نقطہ سمجھنے کا ہے ۔وہ ہمیں گھٹنوں پر لے آتا ہے جو کہ نماز کی بہترین حالت ہے۔

Comments