غم عشق کا علاج

 



کسی کو چھوڑنا یا بھولنا آسان نہیں ۔اکثر لوگ کہیں گے کہ یہ مشکل کاموں میں سے ایک ہے۔لیکن پھر بھی ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ چیزیں جو ہمیں پسند ہیں لیکن ہم حاصل نہیں کر سکتے ،کچھ چیزیں ہمیں چاہئیں لیکن وہ ہمارے لئے اچھی نہیں ،اور کچھ چیزیں جو ہمیں پسند ہیں لیکن اللّٰہ کو نہیں پسند۔ایسی چیزوں کو چھوڑنا مشکل ہے۔اپنی پسندیدہ چیزوں کو چھوڑنے کی کوشش سب سے بڑی جنگ ہے جو ہمیں لڑنی پڑتی ہے۔
اگر یہ اتنا مشکل نہ ہو ؟ اگر یہ جنگ نہ ہو؟  بلکہ آسان ہو ۔کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ جی بالکل ۔ جب آپ کو کوئی اس سے بہتر نعم البدل مل جائے۔ 
کہا جاتا ہے کہ جب تک آپ کو کوئی بہتر نعم البدل نہیں مل جاتا آپ کھوئی ہوئی چیز کے غم میں رہتے ہیں ۔انسان کو اپنے اندر کے خالی پن سے نپٹنا نہیں آتا۔ خالی پن کی تکلیف سے بچنے کے لیے اسے بھرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے کیونکہ خالی پن کے احساس کا ہر لمحہ پچھلے لمحے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔اور ہر وقت انسان کو کسی کمی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔اسی لیے اس احساس کو دبانے کے لیے ،ہم اپنے آپ کو بے مقصد چیزوں اور شوقوں میں الجھائے رکھتے ہیں ۔
ہم اپنے آپ کو جھوٹے آسروں سے آزاد کرنے کی تو بات کرتے ہیں لیکن سوال ہے کیسے؟؟ ایک دفعہ جھوٹے آسرے کی عادت پڑ گئی تو جان کیسے چھوٹے گی؟اکثر بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں لت پڑ جاتی ہے۔لگتا نہیں کہ ہم جان چھڑا پائیں گے۔یہاں تک کہ وہ ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہوں تب بھی۔ یہاں تک کہ وہ ہماری زندگی اور خدا سے ہمارے تعلقات خراب کر رہے ہوں۔یہاں تک کہ وہ ہمارے لیے غیر صحتمند ہوں ۔ ہم ان سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ہم ان پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔ہم انہیں اپنی کمزوری بنا لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف یہی ہماری ضرورت پورا کر سکتے ہیں اس لیے ہم انہیں چھوڑنے کی کوشش بھی ترک کر دیتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اللّٰہ کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دینے میں تکلیف کیوں ہوتی ہے؟ ہم خواہشات کو جانے کیوں نہیں دیتے؟ میرے خیال میں ہم اس لیے مشکل کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں بہتر شے نظر نہیں آ رہی ہوتی۔
جب ایک بچے کو دوکان میں پڑے کار کے کھلونے کی خواہش ہو جائے اور اس کے پاس لینے کے وسائل نہ ہوں تو اسے روز اس دوکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے کتنا جبر کرنا پڑے گا۔ہو سکتا ہے کئی بار چوری کے خیال بھی آئیں ۔لیکن اگر اس کے سامنے ایک زبردست ماڈل کی اصلی گاڑی آجائے یا فِراری (Ferrari)آجائے۔ تو کیا اس کی نظروں میں اب اس کھلونے کی قدر پہلے جیسی رہے گی۔ کیا اب بھی اس دوکان کے سامنے سے گذرنا اتنا تکلیف دہ ہو گا، کیا اب بھی اس کھلونے کو حاصل کرنے کے لیے وہ چوری کرنے کی سوچے گا؟؟؟ جب بہتر شے سامنے ہو تو پچھلی خواہشات سے جان چھڑانا آسان ہوتا ہے۔ 
ہمیں محبت چاہئے،پیسہ چاہئے،عہدہ چاہئے اسی زندگی میں چاہئے۔ اور اس بچے کی طرح یہ تمام خوہشات ہمیں کھائے جاتی ہیں 
تو جب ہماری یہ خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو ہم چوری کرنے کا سوچتے ہیں۔اپنی خواہش کے لیے حرام طریقے سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔حرام تعلقات، حرام کاروبار، حرام عمل ،حرام لباس سے بچنا مشکل لگتا ہے۔اس دنیا کی محبت سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس بچے کی طرح بس یہی ہماری نظر کے سامنے ہے۔
یہ دنیا اور اس میں موجود ہر شے کھلونے کی کار کی طرح ہے۔ہمارے لیے اسکی خواہش دل 
سے نکالنا مشکل ہے کیونکہ ہم نے ابھی تک اس سے بہتر کچھ نہیں دیکھا۔ہم نے اب تک اصلی حقیقت اور اصل زندگی نہیں دیکھی۔
اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی نے فرمایا ہے کہ
“اس دنیا کی زندگی کھیل اور تماشہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ۔اگر یہ لوگ جانیں” (قرآن 29:64)
اس دنیا کی زندگی کے لیے اللّٰہ تعالٰی نے الحیاہ کا لفظ استعمال کیا اور اگلی زندگی کے لیے الحیوان کا عربی لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے اصلی حقیقی زندگی۔
اور آیت کے آخر میں اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ “اگر یہ لوگ جانیں “ یعنی اگر ہم جانیں تو اصل اور بہتر زندگی پر دنیا کی کم تر اور عارضی زندگی کو کبھی ترجیح نہ دیں۔
ایک اور جگہ اللّٰہ نے فرمایا ہے “تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت کا گھر بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔”(قرآن 87:16)
آخرت کی زندگی کی خصوصیت خیر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔چاہے دنیا کی کوئی شے کتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو اس میں یہ دونوںخصوصیات اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ یا اس میں خیر نہیں ہو گی یا وہ عارضی ہو گی۔ 
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی کسی شے کی خواہش نہ رکھیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں حکم ہے کہ دنیا سے اپنے حصے کی خیر اکٹھا کریں اور دنیا اور آخرت میں خیر کی طلب کریں ۔ لیکن کھلونے والی کار اور اصلی اچھے ماڈل کی کار کا فرق دھیان میں رکھتے ہوئے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے کہ دنیا کم تر ہے اور آخرت ہی اصل اور بہت بہتر ہے۔ لیکن اس سے کیا ہو گا؟؟ اس سے یہ ہو گا کہ آپ کبھی بھی گھٹیا اور کم تر شے کے لیے اعلٰی اور عمدہ شے کو نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کے لیے حرام چھوڑ کر حلال اپنانا آسان ہو جائے گا۔جب اصل پر نظر ہو تو نقل پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کو مکمل طور پر ترک کر دیں بلکہ اس دنیا سے اتنا ہی تعلق رکھیں کہ اگر آخرت کے لیےدنیا کی خواہش چھوڑنے کو کہا جائے تو مشکل نہ ہو۔جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے رکنا مشکل نہ ہو، جن حدود کو قائم رکھنے کا حکم ہے ان کو قائم رکھنے میں مشکل نہ ہو۔ایک سمجھدار بچے کی طرح جو کھلونا چاہتا ہے لیکن اگر اسے کھلونے اور اصل میں انتخاب کرنا ہو تو اس کے لیے مشکل نہ ہو۔ مثال کے طور پر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللّٰہِ علیھم اجمعین 
دولتمند تھے۔ لیکن جب ضرورت پڑتی آدھا یا سارا مال اللّٰہ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔
اس آگاہی کی وجہ سے ہم یہ بھی جان لیتے ہیں کہ مدد یا رضا کے لیے کس کو پکارنا ہے۔ مثلاً اگر ہم شدید پریشانی کا شکار ہیں اور بادشاہ کو نہیں جانتے یا بادشاہ تک رسائی نہیں ہے تو ہم بادشاہ کے ملازم کی منّتیں کریں گے۔ لیکن اگر ہم خود بادشاہ سے ملنے جا رہے ہیں اور راستے میں بادشاہ کا ملازم مل بھی جائے تو ہم ضروری سلام دعا کے بعد وقت ضائع کئے بغیر آگے نکل جائیں گے۔ہم ملازم کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ ہماری توجہ بادشاہ سے بات کرنے پر ہو گی۔ چاہے بادشاہ نے اس ملازم کو کچھ اختیارات بھی دیے ہوں ،جب ہمیں معلوم ہے کہ ہم براہِ راست بادشاہ کے سامنے اپنی درخواست رکھ سکتے ہیں تو ہم اس ملازم کے سامنے منّتیں کرنے کا نہیں سوچیں گے۔ 
یہ علم اس وقت آتا ہے جب آپ خدا کو جان لیں اور اس علم کے بعد خدا کے بندوں سے آپ کا تعلق بالکل بدل جاتا ہے۔
حقیقت جاننے کے بعد ہمارا محبت کرنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ابنِ تیمیہ (رض) اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”اگر کسی کا دل ایسے شخص کا غلام ہے جو اس کے لیے حرام ہے تو اس کی اس حالت کی وجہ خدا سے دوری ہے کیونکہ جب دل ایک بار اللّٰہ کی عبادت اور اس کے ساتھ اخلاص کا مزہ چکھ لیتا ہے تو پھر کچھ بھی اس سے زیادہ شیریں  
اور قیمتی نہیں ہوتا۔کوئی بھی اپنی محبت کو نہیں چھوڑتا ،سوائے دوسری محبت کے لیے یا کسی کے خوف کے لیے۔ دل  جھوٹی محبت کو سچی محبت کی خاطر یا کسی اور خدشے کے تحت رد کر دیتا ہے” 
اس امت کا بڑا مسئلہ جیسے حضرت محمد صلَّ اللّٰہُ علیہ وسلم نے بتایا “وھن” ہے یعنی دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ۔ ہم دنیا کی محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔اور جب بھی آپ کسی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو اس سے نکلنا مشکل ہوتا ہے جب تک کوئی بڑی محبت اس کی جگہ نہ لے لے۔اس دنیا کی محبت دل سے نکالنے کے لیے اور اس کی جگہ لینے کے لیے اس سے بھی بڑی محبت چاہئے۔جب اللّٰہ اور اس کے رسول کی محبت اور آخرت کا یقین دل میں گھر بنا لے تو باقی تمام خواہشات اور شوق اپنی حیثیت کھو دیتے ہیں۔جتنا اس محبت کا یقین ہوگا اتنا ہی  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ بات سمجھ آئے گی” کہہ دیجیے، بے شک میری نماز، میری قربانی ،میری زندگی اور میری موت اللّٰہ ربُّ العالمین کے لیے ہے”(قرآن 6:162)
سو بھولنے کا علاج بھی محبت سے ہی ہے۔ محبت کیجیے۔ اصل سے ،سب سے عظیم سے ،اصلی گھر سے تبھی آپ گڑیا کے گھر کی محبت سے آزاد ہوں گے۔

Comments