محبت یا شہوت

 



کیا یہ محبت ہے جو مجھے محسوس ہو رہی ہے
“محبّت ایک ذہنی بیماری کا نام ہے” کم از کم پلیٹو Plato نے تو یہی کہا ہے اور جس نے بھی کبھی زندگی میں محبت کی ہے وہ کسی حد تک اس بات سے متّفق ہو گا کہ اس میں ایک غلطی ہے۔محبت ذہنی بیماری نہیں لیکن نا جائز خواہش ضرور ذہنی بیماری ہے۔
اگر محبت ہونے کے بعد آپ بے چین ،پریشان، اداس ، سوچوں میں گُم، سب کاموں سے اکتاہٹ، اور محبت کے لیے سب کرنے کو تیار ہیں تو زیادہ چانسز اس بات کہ ہیں کہ یہ محبت نہیں ہے۔جو کچھ ہمیں سکھایا گیا ہے اس کے بر عکس سچی محبت ہماری حالت نشئیوں جیسی نہیں بناتی۔
اور جو کچھ فلموں میں محبت کے نام پر دکھایا جا رہا ہے اس دیوانگی کا محبت سے کچھ لینا دینا نہیں ۔اُس سب کو شہوت کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے قرآن میں ھَوَا (ہوائے نفسی) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جو کہ انسان کی سب سے پست، بیکار خواہشات اور جنسی جذبے کو کہتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ جو اس جذبے کی اندھا دھند پیروی کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ گمراہ لوگ ہیں۔” اگر وہ آپ کی نہ سنیں ،تو جان لیں کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے چلتے ہیں ،اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اپنی ہی نفسانی خواہش کی اطاعت کرے اللّٰہ کی ہدایت کو چھوڑ کر”(قرآن 28:50)
جب ہم اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے نفس کی مانتے ہیں تو ہم اپنے نفس کو خدا کے مقابل لا کر کھڑا کر دیتے ہیں اگر ہماری خواہش ،ہماری خدا سے محبت سے زیادہ طاقتور ہے تو ہم نے اپنے نفس کو ہی اپنا آقا مان لیا ہے۔اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں “کچھ لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کی ایسے اطاعت کرتے ہیں جیسا کہ صرف اللّٰہ کی اطاعت کا حق ہے۔اُن سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسے اللّٰہ سے محبت کرنے کا حق ہے۔لیکن مؤمن تو اللّٰہ سے ہی شدید محبت کرتے ہیں” (قرآن 2:165)
اگر ہم اپنی محبت کے لیے خاندان، عزّت، عزّتِ نفس ،سمجھ بوجھ، اپنا وجود، اپنا سکون، اپنا دین یہاں تک کہ اپنے خدا کو بھی ناراض کرنے کو راضی ہو جائیں تو سمجھ لیں یہ محبت نہیں غلامی ہے۔
ایسے شخص کے لیے اللّٰہ فرماتا ہے “کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنے ہی ہوائے نفسی(شہوت) کو اپنا آقا بنا لیا ہے؟ تو اللّٰہ نے اسے گمراہ رہنے دیا ،اور اسکی سماعت اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا” (قرآن 45:23)
تصور کریں اس حالت کا جب آپ کی آنکھوں، دل اور کانوں پر مہر لگی ہو۔ نفسانی خواہشات تسکین نہیں غلامی کا نام ہے۔یہ ذہن،جسم اور روح کو غلام بنا لیتی ہیں ۔یہ نشے کی لت اور عبادت ہے۔لٹریچر(ادب) میں اس کی بہت سی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ چارلس ڈکنس(Charles Dickens ) کے ناول (Great Expectations ) میں پِپ(Pip) ایسٹیلا(Estella) کے لیے اپنی محبت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے “ میں اپنا دکھ جانتا تھا، کہ آگر ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھی، میں نے اسے اپنی سمجھ کے خلاف، اپنے وعدوں کے خلاف، اپنے سکون کے خلاف، ارادے کے خلاف ،اپنی خوشی کے خلاف اور یقینی مایوسی کے خلاف جا کر اس سے محبت کی تھی” Dickens کی مس ہیویشام
( Miss Havisham ) اس کو مزید واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں “ میں تمہیں بتاؤں گی کہ محبت کیا ہے۔ یہ اندھی فرمانبرداری ہے، 
بلا شبہ رسوائی،اطاعت،اپنی ذات اور دنیا کے خلاف جا کر کسی پہ یقین اور اعتبار کر کے اپنا دل اور روح کسی بے رحم کے حوالے کرنا جیسے میں نے کیا”
جو مس ہیویشام نے یہاں بیان کیا وہ حقیقت ہے لیکن یہ محبت کی حقیقت نہیں۔یہ ہوس یا شہوت ہے۔ اصل محبت جو اللّٰہ تعالٰی نے ہمارے لیے بنائی ہے وہ بیماری یا نشہ نہیں ہے۔ وہ تو پیار اور مہربان ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے “اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہیں سے تمہارے جوڑے بنائے تا کہ تم سکون حاصل کرو۔اور اس نے تمہارے درمیان پیار اور رحم رکھا۔ بے شک جو غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں” (قرآن 30:21)
اصل محبت سکون لاتی ہے ،بے چینی نہیں ۔ اصل محبت کی نشانی یہ ہے کہ آپ اپنے اور خدا کے سامنے شرمندہ نہیں ہوتے۔اس لیے اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا کہ تم پُرسکون ہو گے” 
شہوت اس کے اُلٹ ہے یہ آپ کو اداس رکھتی ہے اور نشے کی طرح آپ کو ہر وقت اس کی طلب ہوتی ہے اور آپ کا کبھی بھی دل نہیں بھرتا۔آپ اپنا نقصان کر کے بھی اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں،لیکن پھر بھی کامیاب نہیں ہوتے، چاہے آپ ہر کوشش کر لیں آپ کو خوشی نصیب نہیں ہوتی۔
اب جبکہ سب کو اصل خوشی کی تلاش ہے لیکن اکثر نفسانی خواہش کے فریب کے پار ، اصل محبت کو شہوت سے الگ نہیں کر پاتے۔ اسے جانچنے کا ایک طریقہ ہے اگر آپ اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ اس شخص کی محبت مجھے خدا کے قریب لے جا رہی ہے یا خدا سے دور لے جا رہی ہے؟ 
یعنی کیا یہ شخص میرے لیے خدا کو ناراض کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ 
اصل محبت کبھی بھی آپ کے اور خدا کے درمیان روکاوٹ نہیں بنے گی۔بلکہ اسے مضبوط کرے گی۔اسی لیے اصلی اور سچّی محبت صرف اللّٰہ کی بنائی ہوئی حدود میں ہی ممکن ہے۔ان حدود کے باہر جو ہے وہ صرف شہوت ہے، جسے ہم یا تو رد کرتے ہیں یا پھر اس کی غلامی کرتے ہیں۔ہم یا تو اللـّٰہ کے غلام ہو سکتے ہیں یا شہوت کے۔ ایک وقت میں دونوں کے نہیں۔
جھوٹی تسکین کے خلاف لڑ کے ہی ہمیں سچّی خوشی مل سکتی ہے۔یہ فطرتًا ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی نا جائز خواہشات کے خلاف لڑنے سے جنّت حاصل ہوتی ہے۔اللّٰہ تعالٰی کا فرمان ہے 
“ جنہوں نے اپنے رب کا تقوٰی اختیار کیا اور اپنے آپ کو گناہوں کی طرف مائل ہونے سے بچا لیا تو ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جنّت ہوگا”
(قرآن 79:40).

Comments