محبت یا غلامی

 

محبت یا غلامی

جب سارہ ، احمد سے ملی،اسی لمحے اسے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ وہی ہے جس کا اس نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا۔احمد سے مل کر ایسا محسوس ہوتا جیسے برفیلی صبح میں سورج کی کرن ،جس کی گرمائش برف پگھلا دے۔جلد ہی ستائش ،پرستش میں بدل گئی۔ اس سے پہلے کے وہ جان پاتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، وہ قیدی بن چکی تھی۔وہ اپنی ہی پسند اور خواہش کی قیدی بن چکی تھی۔اسے ہر طرف بس وہی دکھائی دیتا تھا۔اس کا سب سے بڑا خوف احمد کی ناراضگی تھا ۔احمد کے ہونے سے ہر شے میں زندگی تھی،اور اس کے بغیر کوئی خوشی ، خوشی نہ تھی۔اس سے جدا ہوتے وقت روح چھلتی ہوئی محسوس ہوتی۔نگاہوں میں ہر وقت اسی کا چہرہ گھومتا،اس کے علاوہ سب بے وقعت لگتا۔وہ اس کے لیے رگوں میں دوڑتے خون جیسا ہو گیا۔اس کے بغیر زندگی کا تصور تکلیف دہ تھا کیونکہ ہر خوشی اسی سے جڑ گئی تھی۔ 
سارہ کو لگا اسے محبت ہو گئی ہے
سارہ نے بہت مشکل زندگی گذاری تھی۔ اس کا باپ اسکے بچپن میں انہیں چھوڑ گیا تھا، وہ 16 سال کی عمر میں گھر سے بھاگ گئی تھی، اس نے نشے اور شراب کی لت سے جان چھڑائی تھی، کچھ عرصہ جیل میں بھی گذارا تھا۔ 
البتہ یہ تمام تکالیف مل کر بھی اس نئی قید کی تکلیف کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں جو اس نے خود اپنے لئے بنائی تھی۔سارہ اپنی آرزو ہی کی قیدی ہو گئی تھی۔اس قید کے بارے  میں ابن تیمیہ رضی اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا ہے 
“قیدی وہ ہے جو خواہشوں کی غلامی کرتا ہے” (ابن قیّم  ال وابل pg 69)
سارہ کی احمد کی پرستش سے ملنے والی اذیت اس کی پچھلی زندگی کی تمام اذیتوں سے بڑھ کر تھی ۔یہ اذیت اسے کھائے جا رہی تھی لیکن کبھی اکتاہٹ نہ ہوتی۔ ریگستان میں پیاسے کی طرح ۔سارہ ایک سراب کا پیچھا کر رہی تھی ۔لیکن سب سے بری غلطی خدا کی جگہ کسی اور کو سونپنے کی اذیت تھی۔
سارہ کی کہانی میں ہمارے وجود کا ایک سچ واضح کیا گیا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہماری تخلیق ایک خاص فطرت پر ہوئی ہے ۔یہ فطرت خدا کی وحدانیت کو پہچانتی ہے اور اس کو زندگی میں جیتی جاگتی حقیقت بناتی ہے۔ اس لئے کوئی حادثہ ،کوئی نقصان، کوئی آفت اس سے زیادہ بڑی نہیں کہ ہم اپنی زندگیوں اور دلوں میں خدا کے مقابل کسی کو لا کھڑا کریں۔ شرک کسی بھی دنیاوی المیئے سے زیادہ انسانی روح کو توڑتا ہے۔جب آپ روح سے خدا کے علاوہ کسی کی محبت ،اطاعت یا فرمانبرداری کرواتے ہیں تو آپ اسکی فطری حالت میں تضاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس حقیقت کی سچائی تب نظر آتی ہے جب آپ اس شے کو کھو دیں جس کی آپ پرستش کرتےہیں ۔
۲۲ جولائی ۲۰۱۰ کو ٹائمز آف انڈیا رپورٹ کرتا  ہے کہ ایک 40 سالہ عورت نے گھر میں اپنے اوپر کیروسین تیل ڈال کر آگ لگا کر خودکشی کر لی۔پولیس کہتی ہے کہ  ۱۹ سال شادی کے بعد بھی بچّہ نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی قدم اٹھایا گیا۔ 
اس سے کچھ دن پہلے 16 جولائی کو پولیس نے ایک 22 سال کے نوجوان کی خودکشی رپورٹ کی ، وجہ گرل فرینڈ چھوڑ گئی۔
بہت سے لوگوں کو ان کے دکھ سے ہمدردی ہوئی ہو گی اور بہت سے خود اس غم  سے گذر رہے ہوں گے۔لیکن اگر صرف اولاد کا یا کسی خاص شخص کا زندگی میں ہونا ہی جینے کی وجہ ہے تو پھر کچھ بہت غلط ہو رہا ہے۔اگر ایک عارضی، زوال پذیر، محدود، کمزور چیز کو ہم اپنے جینے کی وجہ بنا لیتے ہیں تو ہمارا خسارہ لازمی ہے۔کمزور اور عارضی سہارے ،ضرورت کے وقت ہمیں مایوس کریں گے۔پہاڑ چڑھتے ہوئے کمزور ٹہنی کا سہارا لینے سے کیا ہو گا،فزکس کا قانون بتاتا ہے کہ ٹہنی اتنا وزن نہیں سہار سکتی ،اس لیے ٹوٹ جائے گی۔ اور کشش ثقل کا قانون کہتا ہے کہ اس وقت یقینًا آپ گِر جائیں گے۔ یہ کوئی خیال نہیں بلکہ اس مادی دنیا کی حقیقت ہے۔اور روحانی دنیا کی بھی یہ حقیقت ہے جسے قرآن نے واضح کیا
“ لوگو! ایک مثال پیش کی جاتی ہے ،غور سے سنو: جن کو تم اللّٰہ کے سوا پکارتے ہو ، وہ مکھی بھی نہیں بنا سکتے ،اگر وہ اپنی تمام طاقتیں بھی جمع کر لیں، اور اگر مکھی اُن سے کچھ لے لے ، تو وہ اسے واپس بھی نہیں لے سکتے ۔ کتنے کمزور ہیں مانگنے والے اور کتنے کمزور ہیں جن سے مانگا جا رہا ہے” (قرآن 22:73)
اس آیت کا پیغام بہت گہرا اور واضح ہے ۔ جب بھی آپ کسی ضعیف اور کمزور سہارے (جو کہ خدا کے سوا ہر سہارا کمزور ہے) کا آسرا لیتے ہیں تو آپ کی حیثیت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کی مراد حاصل ہو بھی جائے تو وہ ناکافی ہوتی ہے۔جلد ہی آپ کو کسی اور کمی کا احساس ہونے لگے گا۔آپ کو سچی تسلّی اور اطمینان نہیں ملے گا۔اسی لیے اپ گریڈ(upgrade) اور ٹریڈ اِن(trade in) کا رواج بڑھ گیا ہے۔آپکا فون ،گاڑی،کمپیوٹر،عورت ،مرد سب کا نیا اور پہلے سے بہتر متبادل ہو سکتا ہے۔
البتہ اس غلامی سے آزادی کا راستہ ہے۔ اگر وہ سہارا جس پر آپ بھروسہ کر رہے ہیں غیر متزلزل، مضبوط،اور ہمیشہ رہنے والا ہے تو آپ مکمل طور پر محفوظ ہیں ،آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔اللّٰہ تعالٰی اس سچ کو قرآن میں اس طرح بیان کرتے ہیں 
“ دین میں کوئی زبردستی نہیں :ہدایت اور گمراہی میں فرق واضح کر دیا گیا، جس نے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر ایک اللّٰہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی کو تھام لیا،جو کبھی نہیں ٹوٹے گی۔اللّٰہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے” (قرآن 2:256)
جس کا آپ سہارا لے رہے ہیں اگر وہ مضبوط ہے تو آپ بھی مضبوط ہو جاتے ہیں اور یہ طاقت آپ کو سچّی آزادی کا احساس دلاتی ہے۔اسی آزادی کو ابن تیمیہ رضی اللّٰہُ تعالٰی نے واضح کیا ہے جب انہوں نے فرمایا کہ  “میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ میری جنّت اور میرے باغ میرے سینے میں ہیں ۔وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں میں جہاں بھی جاؤں۔ قید میرے لیے موقع ہے کہ میں اپنے رب کے ساتھ اکیلے میں وقت گذاروں ۔ اگر مجھے قتل کریں گے تو میں شہید ہوں اور اگر ملک بدر کریں گے تو مجھے ہجرت نصیب ہوگی 
(ابن قیّم آل وابل  pg69)
ایسا سہارا جو کوتاہیوں ،کمزوریوں ، حدوں سے پاک ہو اگر اس کو معبود بنا لیا جائے تو ابنِ تیمیہ کے مطابق انسان اس زندگی میں آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آزاد دل وہ دل ہے جو اس دنیا اور اس میں موجود تمام چیزوں کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہے۔ایسا دل جانتا ہے کہ اصل سانحہ توحید پر سمجھوتہ کرنا ہے ,کہ ناقابلِ تسخیر مصیبت خدا کے علاوہ کسی کی بندگی کرنا ہے۔ایسا دل جانتا ہے کہ اصل قید خدا کی جگہ کسی اور کو سونپ دینا ہے۔چاہے یہ جگہ اپنی ہی خواہش،نفس،دولت، نوکری، جیون ساتھی، محبت،بچّے،زندگی سے محبت کو دے دی جائے یہ جھوٹے خدا آپ کو قید کر کے اپنا غلام بنا لیں گے۔اور اس قید کی تکلیف زیادہ گہری، شدید اور دیر پا ہوگی بہ نسبت زندگی کی باقی دکھوں اور تکالیف سے۔
اگر غور کریں تو حضرت یونس علیہ السلام کا تجربہ بہت اہم ہے۔جب وہ مچھلی کے پیٹ میں قید ہو گئے ،تو ان کے پاس بس ایک ہی راہِ نجات تھی، اللّٰہ سے رجوع، اس کی قدرت اور اپنی بے بسی کا احساس ۔ اُن کی دعا اس حقیقت کا احاطہ کرتی ہے “ کوئی معبود نہیں سوائے تیری ذات کے ،تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں”(قرآن 21:87) 
ہم میں سے بہت سے بھی مچھلی کے پیٹ میں قید ہیں یہ مچھلی کا پیٹ ہماری خواہشیں ، ہمارے معیار اور ہمارے خود ساختہ خدا ہیں۔
ہم اپنی ہی ذات کے غلام ہیں اور یہ قید دل میں خدا کے علاوہ کسی اور بسانے کا نتیجہ ہے۔اس طرح سے ہم اپنے لیے بد ترین اور دردناک قید بناتے ہیں : کیونکہ دنیا کی قید تو ہمیں عارضی چیزوں سے محروم کرتی ہے لیکن یہ روحانی قید ہم سے ہمارا قیمتی سہارا چھین لیتی ہے ، جو ہے اللّٰہ اور اس سے ہمارا تعلق۔

Comments