زوال کا سبق

 


زوال کا سبق
کسی کو زوال پسند نہیں اور کوئی بھی ڈوبنا نہیں چاہے گا ۔لیکن اس دنیا کے سمندر میں میں مشکلات سے لڑتے لڑتے یہ ممکن نہیں کہ آپ دنیا کے دھوکے میں نہ آ جائیں ۔کبھی کبھار ہم دنیا کی کشش کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سمندر کا پانی ہمارے دل کی کشتی میں جگہ لینا شروع کر دیتا ہے۔
جسطرح پانی کشتی کے ٹکڑے کر دیتا ہے اسی طرح یہ دنیا بھی ہمارا دل توڑ دیتی ہے۔
کچھ دن پہلے کسی نے مجھے یاد دلایا کہ ٹوٹی کشتی کی کیا حالت ہوتی ہے۔ کیسا ہوتا ہے جب آپ دنیا کو دل میں آنے کی اجازت دیتے ہیں ۔مجھے اس لیے یاد آیا کیونکہ میں نے کسی کو اس حالت سے گذرتے دیکھا جس سے کبھی میں گذری تھی۔جسے میری طرح اس دنیا اور دنیاوی زندگی سے بے حد محبت تھی اور میری طرح اس کی دل کی کشتی بھی ٹوٹ گئی اور وہ ڈوب گئی اور مسلسل گہرائی میں ڈوبتی گئی کیونکہ اسے نہیں معلوم تھا کہ واپس اوپر کی طرف کیسے آنا ہے اور کس کا سہارا لینا ہے
اور وہ ڈوب گئی
جب آپ دنیا کے لیے اپنے دل کا دروازہ کھولتے ہیں تو یہ اندر آکر آپکے دل پر قبضہ کر لیتی ہے جیسے سمندر کشتی پر۔پھر آپ سمندر کی گہرائی تک ڈوبتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اور آپکو اپنے زوال کی حد محسوس ہوتی ہے۔ اس لمحے اپنے گناہوں اور دنیاوی خواہشوں کی زنجیروں میں جکڑے آپ کو اپنے آس پاس صرف مایوسی اور اندھیرہ ہی محسوس ہوتا ہے۔یہی پاتال (سمندر کا فرش) کی حقیقت ہے کہ وہاں تک روشنی نہیں پہنچتی
حالانکہ یہ اندھیرا اور تاریکی حرفِ آخر نہیں۔  یاد رکھیں رات کے بعد ہی سویرا ہے ۔اور جب تک آپ کا دل دھڑک رہا، زندگی ابھی باقی ہے۔ ہمت توڑنے کی ضرورت نہیں ۔کبھی کبھار پاتال صرف زندگی کے سفر میں ایک مقام ہوتا ہے اور زوال کی اس نچلی سطح پر آپ کے لیے فیصلے کا وقت ہوتا ہے ۔یا تو موت واقع ہونے تک ڈوبے رہیں یا پھر سمندر کی تہہ میں موجود موتی اکٹھے کریں اور اوپر کی طرف جست لگائیں ۔ اور سمندر کی سطح تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔اب آپ پہلے سے زیادہ مضبوط اور موتیوں سے مالدار ہوں گے۔
اگر آپ رَب کو پانے کی جستجو کریں تو وہ آپ کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیگا 
جو آپکی کمزوریاں تھیں ان کو آپکی طاقت اور بہتری کی طرف جانے کی وجہ ،پاکیزگی کا ذریعہ اور رہائی کا راستہ بنا دے گا۔
جان لیجیئے کہ کبھی کبھی زوال بھی عروج کا ذریعہ بنتے ہیں ۔اس لیے ناکامیوں کو بُرا نہ جانئیے ۔ ناکامی سے ہی عاجزی ملتی ہے ،اسے اپنائیے ،اس سے سیکھیں کہ آپ کو رب کی کتنی ضرورت ہے۔ رب کی عظمت اور اپنی بے بسی کو دیکھیئے۔ جس نے اس حقیقت کو پا لیا اس نے بہت کچھ پا لیا۔اصل دھوکے میں تو وہ ہے جسے اپنا آپ تو دکھائی دیتا ہے لیکن اپنا رب نہیں ۔بیچارہ تو وہ ہے جو اپنے اندر کی آواز کو نہیں سُن سکتا، جو اپنے رب کو پکارتی ہے۔ جو اپنے ذرائع و وسائل پر بھروسہ کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ اللّٰہ تمام ذرائع و وسائل ،اسکی روح اور کائنات کی ہر شے کا مالک و خالق ہے۔
رب کو پکاریں جب آپ ڈوب رہے ہوں، وہ نہ صرف آپکو بچائے گا بلکہ آپکی کشتی بھی دوبارہ صحیح سلامت کر دیگا ۔جو دل ٹوٹ گیا تھا اس کو جوڑ دے گا۔ جو بکھر گیا تھا اس کو دوبارہ خوبصورت بنا دیگا ۔صرف اللّٰہ ہی ان سب پر قادر ہے صرف اسی کو پکارئیے۔ 
جب وہ آپ کو بچا لے تو اپنی غلطی کی معافی مانگیے،توبہ کیجیے،لیکن مایوس نہ ہوں ۔ جیسا کہ ابن قیّم رحم اللّٰہ نے فرمایا” شیطان خوش ہوا جب آدم کو جنّت سے نکالا گیا ،لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جب تیراک سمندر میں ڈوبتا ہے تو سمندر کی تہہ سے موتی جمع کرتا ہے اور پھر اوپر آتا ہے”
یہ توبہ اور خدا کی طرف رجوع کی طاقت اور کرشمہ ہے ۔ہمیں بتایا گیا ہے کہ توبہ دل کی پالش ہے۔ اس پالش کا کرشمہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف دل کو صاف کرتی ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ چمکدار اور خوبصورت بنا دیتی ہے
جب آپ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں ، پچھلی غلطیوں سے توبہ کرتے ہیں ، اور اپنے دل اور زندگی کا مرکز اپنے رب کو بناتے ہیں تو آپ میں اپنی زندگی کو اس عروج پر لے جانے کی طاقت آجاتی ہے جس سے پرانے سارے خساروں کا ازالہ ہو جائے۔ کبھی کبھی ناکامی سے آپ ایسی حکمت اور عاجزی سیکھتے ہیں جو اس کے علاوہ آپ نہیں سیکھ سکتے تھے ۔ ابن قیّم فرماتے ہیں  “کسی سلف نے کہا” بے شک ایک بندہ گناہ کرتا ہے اور وہ گناہ اس کو جنّت میں لے جاتا ہے۔اور ایک بندہ نیکی کرتا ہے اور وہ نیکی اس کو جہنّم میں لے جاتی ہے۔” پوچھا گیا کیسے؟ فرمایا” جس بندے سے گناہ ہوا ، اسے ہر وقت یہی فکر رہتی جس کی وجہ سے اس میں خوفِ خدا بڑھا وہ پچھتایا،رویا ، رب کے سامنے شرمندہ ہوا ،اس نے رب کے سامنے عاجزی انکساری اختیار کی تو یہ گناہ اس کے حق میں بہتر ثابت ہوا۔اور اسکے جنّت میں جانے کا سبب بنا۔ اور دوسری طرف جس نے نیکی کی، وہ بھول گیا کہ نیکی کی توفیق اور اس کے وسائل تو اللّٰہ ہی نے دئیے ہیں ، وہ اسے اپنی اچھائی سمجھ کر اتراتا ہے جس سے اس کے تکبّر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی اس کی تباہی کا سبب بنتا ہے” 
اللّٰہ سبحانہُ و تعالٰی قرآن میں ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ رب سے کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئیے۔ اللّٰہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ
“ اے میرے بندوں جنھوں نے اپنی جانوں پہ ظلم کیا ،اللّٰہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ بے شک اللّٰہ تعالٰی تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ بے شک اللّٰہ غفور و رحیم ہے” 
تو یہ دعوت ہے ہر اس شخص کے لئے جو اپنی ہی ذات کی غلامی کر رہا ہے ،جو اپنے نفس کی قید میں ہے جِسے اس کی خواہشوں نے جکڑا ہے ۔یہ دعوت ان سب کے لیے ہے جو دنیا کے سمندر میں ڈوب رہے ہیں اور اس کی طوفانی موجوں سے لڑ رہے ہیں ، حوصلہ کریں اور خود کو ان غلامیوں سے نجات دلائیں ،اپنے آپ کو آزاد کریں دنیا کے جھوٹے معیاروں سے، اور زندگی کی طرف لوٹیں ۔آپ کا دل ابھی بھی زندہ ہے ابھی بھی کامیابی کی امید زندہ ہے ۔کیا توبہ کا دروازہ ابھی بھی کھلا نہیں ہے ؟؟ اپنے گناہوں کے پردے کو چاک کر دیں ،اپنے اور زندگی کے درمیان پردے کو،اپنے اور آزادی کے درمیان پردے کو، اپنے اور روشنی ،اپنے اور رب کے درمیان حائل پردے کو چاک کر دیں۔ سب پردوں کو گرا دیں اور اپنی اصل کو پہچانیں ،اپنے آغاز کو پہچانیں اور اپنے اصل گھر کو پہچانیں ۔جب آپ پر سارے دروازے بند ہوں تب بھی ایک دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا ،ہمیشہ اسی کو تلاش کریں ۔اپنے رب تک پہنچیں اور وہ آپ کو گہری طوفانی لہروں سے بچا کر سورج کی روشنی میں لے آئے گا۔
یہ دنیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک آپ خود اس کے لئے دروازہ نہ کھولیں ۔دنیا آپ پر ہر گز غالب نہیں آ سکتی جب تک آپ خود اپنا آپ اس کے حوالے نہ کریں ۔اگر آپ نے اپنا آپ اس کے حوالے کر بھی دیا ہے اور یہ وقتی طور پر آپ پر قابض ہو بھی گئی ہے تو اپنا قبضہ بحال کریں ۔ابھی زندگی باقی ہے۔ یہ ہماری منزل نہیں۔ اپنے دل سے دنیا کو نکالیں اور اس میں اس کے اصل حقدار کو بسائیں یعنی خدا ۔

Comments