دنیا کی حقیقت

 

دنیا کی حقیقت

کل میں ساحلِ سمندر کی سیر کو گئی۔ جب میں سمندر کنارے بیٹھ کہ کیلیفورنیا کے سمندر کی اونچی اونچی لہروں کا نظارہ کر رہی تھی تو ایک عجیب خیال میرے ذہن میں آیا کہ یہ سمندر بلا کا خوبصورت ہے لیکن جتنا خوبصورت ہے اُتنا جان لیوا بھی ہے۔یہی جادوئی لہریں ،جن سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں ،ہماری جان بھی لے سکتی ہیں اگر ہم ان کے قریب جائیں ۔ پانی جو زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے، زندگی لے بھی سکتا اگر ہم ڈوب جائیں۔ جو سمندر کشتی کو ایک منزل سے دوسری منزل تک لے جاتا ہے وہ کشتی کو برباد بھی کر سکتا ہے
دنیا بھی سمندر کی طرح ہے۔ اور ہمارے دل کشتیوں کی طرح۔ ہماری منزل اس سمندر کے پار ہے اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ہمیں اس سمندر کی ضرورت ہے  ۔لیکن یہ سمندر صرف ذریعہ ہے ،سفر کا،خوراک کا ، بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کا ،منزل تک پہنچنے کا۔ اس سمندر کے پار جانا ہے اس میں مستقل ٹھکانہ نہیں بنانا۔ سوچیں اگر سمندر ہی ہماری منزل ہو ۔کنارے پر نہ جانا ہو تو کیا ہو۔ایک نہ ایک دن ڈوبنا مقدّر ہوگا۔
جب تک سمندر کا پانی کشتی سے باہر رہتا ہے۔کشتی محفوظ تیرتی رہتی ہے۔ لیکن کیا ہوتا ہے جب پانی کشتی میں داخل ہونا شروع ہو جائے؟کیا ہوتا ہے جب دنیا کا سمندر ہمارے دل کی کشتی میں داخل ہونا شروع ہوجائے؟ 
کیا ہوتا ہے جب ہم دنیا کے سمندر کو ہی اپنی منزل بنا لیتے ہیں؟
تب ہی کشتی ڈوبتی ہے
جب انسان کے دل پر دنیا غالب آ جاتی ہے اور وہ دنیا کا غلام بن جاتا ہے۔ وہی دنیا جس پر اس نےحکمرانی کرنی تھی،وہی دنیا اس پر حکمرانی کرنے لگتی ہے۔جب کشتی ڈوب جائے تو اسکی اپنی کوئی سمت نہیں ہوتی بلکہ وہ سمندر  کی لہروں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اگر اس دنیا کے سمندر میں ہم اپنی دل کی کشتی کو سلامت رکھنا چاہتے ہیں تو دنیا کے بارے میاں ہمارا وہی نظریہ ہونا چاہیے جو قرآن پاک میں اللّہ سبحانہُ و تعالٰی نے فرمایا ہے۔ “ بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں” 
(قرآن (3:190)
یہ دنیا ہمارے لیے بنائی گئی ہے اور ہم اس دنیا میں رہتے ہیں ۔زہد کا مطلب ترکِ دنیا نہیں ہے ۔بلکہ حضرت محمد صلَّ اللّٰہُ علیہٖ واٰلہِ وسلِّم نے فرمایا کے دنیا سے اپنا حصہ لو۔ 
حضرت انس رضی اللّٰہُ تعالٰی نے فرمایا کہ ایک بار تین صحابہ کرام رضوان اللّٰہِ علیہٖ اجمعین ،ازواجِ مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور علیہ السلام کے معمولات اور عبادات کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور فیصلہ کیا کہ اللّٰہ تعالٰی نے تو رسول اللّٰہ صلَّ اللّٰہُ علیہ وسلّم کے ساتھ خاص معاملہ فرمایا ہے،ہمارا معاملہ تو عام ہے اس لیے ہمیں زیادہ محنت کی ضرورت ہے
اُن میں سے ایک نے کہا کہ اب سے میں ساری رات عبادت کیا کروں گا دوسرے نے کہا میی سارے دن کا روزہ رکھوں گا اور تیسرے نے کہا میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گا۔ جب حضور صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو انہوں نے اُن سے فرمایا “کیا تم نے یہ سب کہا ہے؟ اللّٰہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ خدا خوفی اور خدا شناسی رکھتا ہوں ،لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور کھولتا بھی ہوں ، میں نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ،اور میں نے شادیاں بھی کیں ہیں ۔ جو بھی میری سنّت کے خلاف جائے گا وہ میرے ساتھ نہیں”(متّفق علیہ)
اس دنیا سے دور رہنے کے لیے حضور علیہ الصلٰوہ و السلام نے دنیا ترک نہیں کی۔بلکہ انہوں نے دل اس دنیا سے نہیں لگایا۔ انہوں نے اپنا دل اللّٰہ سے لگایا اور اس تک پہنچنے سے لَو لگائی ۔آپ علیہ الصلوٰہ السلام سے زیادہ بہتر طور پرکس نے اس آیت کو سمجھا ہوگا 
“ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل تما شہ ہے اور اصلی ٹھکانہ تو آخرت کا گھر ہے۔ یہی زندگی کی حقیقت ہے اگر کوئی سمجھے” (قرآن 29:64) 
دنیا سے لا تعلق رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دنیا کی چیزوں کو اپنا نہیں سکتے بلکہ بہت سے صحابہ کرام تو بہت دولتمند تھے۔ بلکہ اسکا مطلب ہے کہ دنیا کو اتنی ہی اہمیت دیں  جتنی اس کی حیثیت ہے ۔ یعنی یہ ہمارے ہاتھ میں رہے لیکن دل پر قبضہ نہ کرے۔ حضرت علی رضی اللّٰہُ تعالٰی عنہُ نے کیا خوب اس نقطے کو واضح کیا ہے “ دنیا سے لاتعلقی یہ نہیں کہ تمہارے قبضے میں چیزیں نہ ہوں ،بلکہ یہ ہے کہ چیزوں کا تم پر قبضہ نہ ہو”
سمندر کے پانی کا مقصد کشتی کو پار پہنچانا ہے ۔جب تک پانی باہر رہے گا کشتی اپنی منزل کی سمت خیریت سے رواں دواں رہے گی ۔پانی کے باہر رہنے میں ہی کشتی کی سلامتی ہے ۔ لیکن جیسے ہی پانی کشتی میں داخل ہوتا ہے کشتی اپنا وجود اور مقصد کھو دیتی ہے اور اپنی منزل  تک پہنچنے میں ناکام  ہو جاتی ہے۔ با لکل اسی طرح اس دنیا میں ہماری زندگی اور ضرورت کا سامان ہے۔ جب تک ہم اس دنیا کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہمیں اس دنیا کو صرف ضرورت کی حیثیت دینی ہے اسے اپنے اوپر حاوی نہیں کرنا۔اسی لیے اللّٰہ تعالٰی نے اس دنیا کو “متاع” کہا ہے۔ یعنی “عارضی وسائل” دنیا صرف وسیلہ ہے حاصل نہیں ،صرف راستہ ہے منزل نہیں۔
یہی وہ نقطہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰہ و السلام نے واضح کیا جب انہوں نے فرمایا کہ
“ میرا اس دنیا سے تعلق کیسا ہے؟ ایک مسافر کی طرح جو درخت کی چھاؤں میں تھوڑی دیر کے لیے رکا ہے،اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ،اس درخت کو چھوڑ کر واپس اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے”(احمد، ترمذی)
ایک لمحے کے لیے مسافر کی مثال کو سمجھیں ۔کیا ہوتا ہے جب آپ سفر میں ہوں یا آپ کو معلوم ہو کہ کہیں پر آپ کا قیام عارضی ہے ؟ اگر کسی شہر میں آپ کا قیام ایک رات کا ہے تو اس جگہ سے آپ کس حد تک جڑنے کی کوشش کریں گے؟جب آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے بس تھوڑی دیر ہی رُکنا ہے تو آپ صرف گذارہ کرنے پر ہی راضی ہو جائیں گے ۔ کیا آپ اچھا خاصا بندوبست کرنے کے لیے ٹھیک ٹھاک خرچہ کرنےلگیں گے ؟ نہیں۔ فرض کریں آپ کے باس نے آپ کو کسی پراجیکٹ پر کام کرنے کسی دوسرے شہر بھیجا ہے ۔فرض کریں آپ کو نہیں بتایا گیا کہ کام کب ختم ہونا ہے ، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ جلد یا بدیر آپ کو اپنے گھر واپس آنا ہے ۔تو آپ اس نئے شہر میں کیسے رہیں گے؟  کیا آپ اس علاقے میں گھر خریدیں گے؟ یا اپنے گھر میں مہنگا فرنیچر اور ڈیکوریشن ڈالیں گے ؟ کیا اس گھر میں لمبے عرصے کی سرمایہ کاری کریں گے؟ کیا اس عارضی قیام پر آپ اپنی ساری بچت خرچ کریں گے؟جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ ایک دن یہ سب چھوڑ کر واپس جانا ہو گا۔یقینًا نہیں ۔ بلکہ آپ صرف اپنی ضرورت تک محدود رہیں گے۔اور زیادہ خرچے سے بچنے کی کوشش کریں گے۔کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کب واپسی کا بلاوہ آ جائے۔
یہ مسافر کی سوچ ہے۔جس میں قدرتی طور پر لا تعلقی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ہر وقت جگہوں، لوگوں ، چیزوں کے عارضی اور وقتی ہونے کا احساس رہتا ہے۔یہی حکمت آپ صلَّ اللّٰہ علیہ واٰلٖہ وسلم نے اس حدیث میں بیان کی۔آپ اپنی امّت کے لیے آنے والے اس خطرے کو جانتے تھے اسی لیے یہ خطرہ ان کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔
آپ صلَّ اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اللّٰہ کی قسم مجھے تمہاری غربت کا خوف نہیں بلکہ اس بات کا خوف ہے کہ تمہارے لیے دنیا کی بہتات ہو جائے گی جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی پھر تم آپس میں مقابلے کرو گے جیسے کہ تم سے پہلے لوگ آپس میں مقابلے کرتے تھے پھر تم برباد ہو جاؤ گے جیسے کہ تم سے پہلے لوگ ہوئے”(متفق علیہ) 
حضرت محمد صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلم اس دنیا کی فطرت کو جانتے تھے۔وہ جانتے تھے اس دنیا میں کس طرح رہنا ہے۔انہوں نے بھی اسی دنیا میں زندگی گذاری جس میں ہم نے گذارنی ہے ۔لیکن ان کی کشتی جانتی تھی کہ کس طرح اس سمندر سے اپنے آپ کو بچا کر کنارے تک پہنچنا ہے ۔وہ جانتے تھے کہ یہ سورج کی کرنوں میں چمکتا سمندر ،کشتیوں کا قبرستان بھی بن سکتا ہے۔

Comments