قرب الہی

 

قرب الہی

ہم سب کی زندگیوں میں جذباتی لمحات آتے ہیں ۔ مجھے جب یہ لمحہ محسوس ہوا میں مسجدِ حرم کی چھت پہ کھڑی تھی ۔ میرے اوپر صرف آسمان تھا اور نیچے کعبے کا خوبصورت نظارہ اور اللّہ کی واضح نشانی، زندگی اور آنے والی زندگی ۔ میرے ارد گرد لوگوں کا ہجوم تھا جو دنیا میں اس جگہ کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوتا ،لیکن مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ میں یہاں بالکل اکیلی کھڑی ہوں اور میرے ساتھ صرف اللّہ ہے۔ 
میں اس چھت پہ دُکھی دل،پریشانی اور شکوک وشبہات میں گھری کھڑی تھی۔ حالات کے سامنے بے بس اور خوفزدہ،میں اپنی زندگی میں ایک دو راہے پہ کھڑی تھی کہ نہ جانے آنے والا وقت کیا حالات لائے گا یا کوئی امید باقی ہے۔
سو مسجدِ حرم کی چھت پہ کھڑے مجھے حضرت موسٰی علیہ السلام کی کہانی یاد آئی ،جب وہ بحرِاحمر(سمندر) کے کنارے کھڑے تھے ۔بظاہر ان کے سامنے سمندر تھا جو حملہ آور فوج سے بھاگنے کی راہ میں روکاوٹ بنا ہوا تھا۔لیکن ان کی نظر اللّہ پر تھی اور یقین اس راستے پر تھا جو اللّہ نے اُن کے لیے نکالنا تھا۔
جبکہ ان کی قوم شدید شکوک وشبہات اور بد گمانی کا شکار ہو رہی تھی اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو دُہائیاں دے رہی تھی لیکن حضرت موسٰی علیہ کا یقین نہیں ڈگمگایا ۔ انہوں نے فرمایا” انَّا مَعِیَ رَبّیِ سَیَھدِین۔
اُس لمحے جب مستقبل کے اندیشے مجھے ڈرا رہے تھے تو میرے دل نے کہا “ اِنَّا مَعِیَ رَبِّی سَیَھࣿدِیࣿن” (26:62) “بے شک میرا رب میرے ساتھ ہے وہ میری رہنمائی کرے گا”
ہم مشکلوں پریشانیوں کے پار صرف اس وقت دیکھ سکتے ہیں جب ہمارا دل ایمان پر قائم ہو۔ اسلام کی بنیاد توحید ہے لیکن توحید صرف زبانی کہہ دینا نہیں کہ اللّہ ایک ہے۔
اس کے گہرے معنی ہیں کہ آپ کا مقصد،آپ کی عبادت،آپ کی محبّت اور آپکا کا خوف صرف ایک ہی ذات ، یعنی اللّہ کے لیے ہو ،یہ توحید ہے۔ جب آپکی سوچ ،رہن سہن طور طریقے اصول سب ایک اللّہ کے قانون کے مطابق ہوں۔
حدیثِ پاک کے مفہوم سے آپ اسے سمجھ سکتے حضرت محمد علیہ الصلوٰہ و السلام  نے فرمایا جو آخرت کو اپنا مقصدِ حیات بناتا ہے تو اللّہ سبحانہُ و تعالٰی اس کے دل کو دنیاوی بھاگ دوڑ سے پاک کر دیتے ہیں ،اس کے معاملات اپنے ذمّے لے لیتے ہیں اور دنیا اس کے قدموں میں آجاتی ہے اور جو اس دنیا کو اپنا مقصدِ حیات بناتا ہے  تو اللّہ تعالٰی مفلسی اس کی نگاہوں کے بیچ لٹکا دیتے ہیں ،اس کے معاملات بکھیر دیے جاتے ہیں اور اسے اس دنیا سے اس کے مقدر کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔(ترمذی) 
اگر آپ نے کبھی میجک آئی(magic eye) کی تصویر دیکھی ہو تو اس بات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ قریب سے دیکھنے میں وہ صرف رنگین نقطوں سے بھری تصویر لگتی ہے لیکن جب اسے تھوڑا دور کر کے ایک خاص نقطے پر نظر جما کے غور کریں تو کچھ شکل یا الفاظ لکھے نظر آتے ہیں اور اگر ایک لمحے کے لیے نظر ہٹا لی جائے تو دوبارہ وہ تصویر ان نقطوں میں گٌم ہو جاتی ہے 
بالکل اسی طرح ہم جتنا اس دنیا میں گُم ہوں گے ہمارے مسائل کی شدّت اتنی ہی بڑھ جائے گی ،جتنا اس دنیا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اتنی ہی یہ ہم سے دور ہوتی محسوس ہوگی، جتنی دولت کی خواہش کریں گے اتنی ہی مفلسی محسوس ہو گی۔جتنی دولت جمع کر لیں ہر وقت اس کے ضائع اور کھونے کا ڈر ہوگا۔مفلسی کا خوف ایک بیماری ہے جو دنیا دار کو لاحق ہوتی ہے۔یہی وہ مفلسی کی بیماری ہے جسکا حضرت محمد علیہ الصلوٰہ و السلام نے ذکر کیا کہ مفلسی دنیا کی خواہش کرنے والوں کی آنکھوں کے درمیان لٹکا دی جاتی ہے۔یعنی جس طرف دیکھیں گے ان کو مفلسی نظر آئے گی۔چاہے جتنی دولت جمع کر لیں ،انکی مزید دولت اکٹھی کرنے کی خواہش ختم نہیں ہو گی،اُن کو دولت کے انبار سے بھی تسکین نہیں ملے گی۔
اس کے بر عکس جو اللّہ سے محبّت کرتے ہیں وہ تھوڑے میں بھی خوش رہتے ہیں وہ غریبی میں بھی دوسروں کی مدد کرتے ہیں وہ اللّہ پر توکّل کرتے ہیں تو اللّہ اُن کے دلوں کو سکون سے بھر دیتا ہے اور دنیا بھی ان کے قدموں میں آتی ہے۔ اور جب ایسے لوگ زندگی میں مالی پریشانی، حادثے، دھوکے، غم، بے آسرا، بے چارگی ،دُکھ ،تکالیف کا شکار ہوتے ہیں تو صرف اور صرف اللّہ کی طرف رُجوع کرتے ہیں  اور پھر اللّہ ان کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتا ہے۔
یہ کوئی خوش فہمی نہیں بلکہ اللّہ کا وعدہ ہے قرآن میں 
“اور جو اللّہ کا تقوٰی اختیار کرے تو اللّہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے اور وہاں سے فراہم کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔اور جب کوئی اللّہ پر توکل کرتا ہے تو اللّہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے”(قرآن 3  -65:2)
جو اللّہ کی رضا میں راضی ہو اور یہ دل سے مان لے کہ میری زندگی میں ہونے والا ہر کام اللّہ کی مرضی سے ہو رہا ہے اور اس میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے جو ابھی مجھے سمجھ نہیں آرہی لیکن مجھے اپنے اللّہ کی رحمت اور محبت پر پورا بھروسہ ہے تو ایسے لوگوں کی زندگی میں سکون ہی سکون ہوتا ہے۔ 
ذرا تصوّر کریں ایسی زندگی کا جس میں ہر لمحہ سکون و اطمینان ہو۔یہ مومن کی زندگی کا نقشہ ہے۔جس کے بارے میں حضرت محمد علیہ الصلوٰہ و السلام نے فرمایا “بندۂِ مومن کا عجب حال ہے ،اس کے لئے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے ،جب اس کے ساتھ کچھ اچھا ہوتا ہے تو وہ شکرگزار ہوتا ہے جو اس کے حق میں اچھا ہے، اور جب کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ صبر کرتا ہے جو اس کے حق میں بہت اچھا ہے (مسلم)
بندۂِ مومن کا دل ایک جنّت کی طرح ہوتا ہے، جس کے بارے میں ابن تیمیہ رضی اللّہ نے فرمایا ہے کہ “ یقینًا اس دنیا میں بھی ایک جنّت ہے جس نے اُس جنّت کو نہ پایا وہ آخرت کی جنّت کو بھی نہ پا سکے گا”
اور جنّت میں سکون کسی لمحے کا نام نہیں 
بلکہ پوری زندگی ہے۔

Comments