دنیا کی محبت

 



کون ہوگا جسے تحفہ لینا پسند نہیں ہوگا ۔ہمیں وہ تمام نعمتیں چاہیں جو ہماری زندگی کو خوبصورت بناتی ہیں ۔ہمیں اپنے بچوں جیون ساتھی والدین اور دوستوں سے محبت ہے۔ہمیں اپنی تندرستی اور جوانی سے پیار ہے ۔ہمیں اپنے گھر گاڑی دولت اور خوبصورتی سب سے پیار ہے۔لیکن کیا ہوتا ہے جب نعمت ,صرف  نعمت نہیں رہتی, جب خواہش صرف خواہش نہیں رہتی , ضرورت بن جاتی ہے۔ جب ہم ان کےغلام بن جاتے ہیں۔
رحمت نعمت مہربانی تحفہ عنایت فضل یہ سب کبھی بھی ہماری ملکیت نہیں ہوتا بلکہ ہمیں دیا جاتا ہے اس لیے واپس بھی لیا جا سکتا ہے ۔ یہ ہماری ذاتی کمائی نہیں ہوتی اس لیے ہم اس پر اپنا حق نہیں جتا سکتے اور ان کی حقیقت یہ ہے کہ یہ آتے جاتے رہتے ہیں ان کی فطرت عارضی ہے۔ان کے بغیر گذارہ ممکن ہے
ہمیں انعامات کی شدید خواہش ہوتی ہے لیکن ایسا نہیں  کہ انکے بغیر زندگی نہیں گذر سکتی نہ ہی یہ ہماری زندگی کا اولین مقصد ہوتے ہیں
ان کی اہمیت ہوا خوراک پانی جیسی نہیں ہوتی ۔لیکن پھر بھی ہمیں ان کی شدید خواہش ہوتی ہے ۔کون ہوگا جسے تحایف لینا پسند نہ ہو
اور ہم رب الکریم سے ہر لمحہ دعا گو رہتے ہیں کہ وہ ہمیں انعامات فضل اور رحمتوں سے محروم نہ رکھے ۔لیکن ان سب کے باوجود ان کے بغیر زندگی گذارنا ممکن ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی یا تو ہمارے وجود میں اپنی جگہ بناتی ہے یا ہمارے دل میں۔ تحفے کی جگہ کہاں ہے تحفہ دل میں رکھنے کی چیز نہیں یہ ہمارے وجود کے لیے ہوتا ہے اس لیے جب یہ ہم سے جدا ہو تو تکلیف صرف وجود کو ہونی چاہئے نہ کہ دل کو ۔ہر تجربہ کار شخص یہ جانتا ہے کہ وجود کی تکلیف اور دل کی تکلیف میں کیا فرق ہے۔
جب ہم کسی ایسی چیز کو کھو دیں جس کی ہمیں عادت ہو نشے کی حد تک یا کسی ہستی کو کھو دیں جس کے ساتھ گہرا تعلق یا لگاو ہو تو ہماری تکلیف کی شدت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اس درد کی شدت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہم نے کس قدر اس دنیاوی سہارے کی غلامی اختیار کر رکھی تھی۔
اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں اور اندازہ لگائیں کہ کون سی باتیں معاملات چیزیں اور لوگ ہمارے دکھ اور خوف کا  باعث ہیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کن چیزوں نے ہماری زندگی میں غلط مقام پر اپنی جگہ بنا لی ہے ۔شادی کا نہ ہونا , من پسند رشتہ,اولاد, نوکری, ظاہری خوبصورتی , تعلیم مرتبہ ان سب فکروں نے ہماری زندگی کا بیشتر حصہ ضائع کر دیا ہے ۔ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے ہیں نعمتوں کی جگہ جگہ بدلنے کی ضرورت ہے ان کو دل سےنکال کر صرف وجود تک محدود کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ دل صرف الل٘ہ کے رہنے کی جگہ ہے۔
ہمیں اپنی زندگی کی آسائشوں ضرورتوں آسانیوں سے محبت ہونے لگتی ہے یہ انسانی فطری عمل ہے اور ان کی خواہش رکھنا بھی فطری ہے لیکن مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم ان کے عادی ہو جاتے ہیں اور ان کو ابدی سمجھنے لگتے ہیں۔ان سے بے تحاشا لگاو لگا لیتے ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرتے اور رب کی جگہ ان کی چاہت دل میں بسا لیتے ہیں اور رب کو دل سے نکال دیتے ہیں ۔حیرت کی بات ہے کہ ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ رب کے بغیر ہم زندہ رہ سکتے ہیں لیکن خواہشوں آسانیوں کے بغیر نہیں۔
نتیجتّا ہم باآسانی رب کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن آسائشوں اور آسانیوں کو نہیں۔اسی طرح نماز چھوڑنا آسان لگتا ہے بہ نسبت میٹنگ یا میچ  یا شاپنگ یا پارٹی چھوڑنے کے۔اسی طرح سودی معاملات شراب کا کاروبار حرام تعلقات بے پردگی آسان ہو جاتی ہے بہ نست حجاب کے۔منافع خوری اورروشن مستقبل کی فکریں زیادہ اہم ہو جاتی ہیں ۔سادگی اور پاکیزگی سے زیادہ فیشن کی دوڑ اور لوگوں کے معیار پر اترنا زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ معاشرے کے معیار رب کے قانون سےبڑھ کر اہم لگنے لگتے ہیں۔
یہ سب اس وقت ہوتا ہےجب دنیاوی خواہشات ہمارے دل میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں اور ہم رب کو صرف وجود کی حد تک محدود کر دیتے ہیں ۔جو صرف وجود کی حد تک محدود ہو اسے الگ کیا جا سکتا جو دل میں کھب چکا ہو اسے اپنے آپ سے الگ کرنے میں تکلیف ہوتی ہے۔اس کے لیے ہم سب داو پہ لگانے کو تیار ہوتے ہیں۔
لیکن جلد یا بدیر ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس کی بندگی کرتے ہیں۔کون ہماری زندگی میں سب سے اہم ہے ۔آسائشیں آسانیاں یا ان کو بخشنے والا رب, رحمتیں یا رحمان, خالق یا مخلوق,خوبصورتی یا تمام خوبصورتیوں کا پیدا کرنے والا
تکلیف دہ بات یہ کہ ہم نے اپنی گردن کے گرد خواہشوں کا پھندہ ڈال رکھا ہے اور شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا گلا گھٹ رہا ہے, ہم ہی اپنی روح کو بھوکا رکھتے ہیں اور بے چینی کی شکایت کرتے  ہیں۔ہم اپنی تکالیف کے اسباب خود ہی پیدا کرتے ہیں
"اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ اس کے سبب ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو وہ معاف کر دیتا ہے" (القرآن 42:30)
جی ہاں ہمارےبہت سے اعمال کا بدلہ ہمیں ہی بھگتنا پڑتا ہے لیکن اس آیت کے آخر میں الل٘ہ سبحانہْ و تعالٰی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ بہت سے گناہ تو وہ معاف کر دیتا ہے۔ یہاں لفظ" یعفو" استعمال ہوا ہے جو کہ الل٘ہ سبحانہْ و تعالٰی کی صفت "العفو" سے ہے -جس کے معنی ہیں بہت  معاف کرنے والا اور نہ صرف معاف کرنے والا بلکہ نامہ اعمال کو گناہوں سے صاف کرنے والا۔
چاہے جتنی بار ہم اپنی خواہشوں کی خنجر سے اپنے آپ کو زخمی کریں ،اللّہ ہمیں بچا لے گا وہ ہمارے زخموں کو مٹا دے گا جیسے وہ تھے ہی نہیں ۔اگر ہم اس کی طرف رجوع کریں تو۔ 
لیکن کیسی عجیب بات کہ ہمیں خواہشیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں جیسے کوئی شخص ہوا کے بدلے ہیروں کا ہار لے لے۔اور سوچے کہ چاہے جان چلی جائے لیکن میری میّت کے گلے میں ہیروں کا ہار ہونا چاہئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اسی ہار کی وجہ سے اس کی سانس گھٹی ۔خدا کو چھوڑ کر جن راستوں پر ہم چلتے ہیں وہی ہمارے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم نعمت اور ضرورت میں فرق نہیں سمجھتے اور ضرورت کو چھوڑ کر نعمت کو اپنا لیتے ہیں۔اور اس پر انحصار کرنے لگتے ہیں ۔جب نعمت ہم سے لے لی جاتی ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ زندگی ختم ہو گئی ہے۔ جب کہ یہ ایک غلط فہمی ہے جو ہم نے پال رکھی تھی۔اس زندگی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک سے لا تعلق ہو جائیں اور اپنے اصل مقصد کو بھول جائیں ۔اصل مقصد آخرت ہے جس کے لیے ہمیں دنیا میں بھیجا گیا۔ اصل مقصد کے بغیر زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں ۔ کچھ لوگ اس دنیا کی خواہشوں کی دوڑ میں اپنی زندگی کو بے مقصد بنا دیتے ہیں اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔خدا سے دوری ہی اصل نقصان ہے ۔کچھ لوگ کی زندگیوں میں خدا نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں ۔دنیاوی خواہشوں پر انحصار نے ہمیں دھوکے میں ڈالے رکھا۔
صرف خدا ہی زندگی ہے نہ کہ اسکی نعمتیں ۔ خدا ہی سہارا ہے اور اصل ضرورت 
اللّہ تعالٰی فرماتے ہیں 
“کیا اللّہ کافی نہیں اپنے بندے کے لیے ۔لیکن وہ تمہیں اسکے علاوہ دوسرے خداؤں سے ڈراتے ہیں ۔تو جن کو اللّہ گمراہ کر دے ان کے لیے کوئی ھدایت نہیں” (قرآن 39:36)
ہم سب کی ضرورتیں ہیں اور خواہشیں بھی ۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم خواہشوں کو ضرورتوں سے بدل دیتے ہیں ۔ہماری اصل ضرورت خدا کی ذات ہے اور ہم اسے صرف خواہش یا شوق کی حد تک محدود کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہمارا گذارا ہو جائے گا۔
ہماری مشکلیں تب شروع ہوتی ہیں جب ہم منزل اور اس تک پہنچنے کے راستے میں گڑ بڑ کر دیتے ہیں ۔خدا ہماری منزل ہے اور باقی سب کچھ اس تک پہنچنے کے راستے ہیں ۔ہم اپنی زندگی مشکل بنا دیتے ہیں جب ہم منزل کو نظرانداز کر کے راستوں کی دوڑ میں اپنے آپ کو گُم کر دیتے ہیں ۔
ہر نعمت کا مقصد ہمیں خدا کے قریب لے جانا ہے۔نعمتیں بھی خدا تک لے جانے کا راستہ ہیں ۔مثال کے طور پر کیا حضرت محمد علیہ الصلوٰہ و السّلام نے نہیں فرمایا کہ نکاح نصف دین ہے۔؟ کیوں؟ کیونکہ زندگی کے حالات ہماری کردار سازی کرتے ہیں ۔ہم صبر، شکرگزاری، رحم، عاجزی، سخاوت، قربانی، اپنے اوپر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینا ، ان سب خصوصیات کے بارے میں پڑھتے ہیں لیکن یہ خصوصیات آپ میں نہیں آ سکتیں جب تک آپ ان حالات سے نہ گزریں جہاں ان کا امتحان ہو۔
نکاح کی نعمت بھی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے جب تک یہ ذریعہ ہی رہتا ہے ۔اسے منزل اور واحد مقصد نہیں بنا لیا جاتا۔اللّہ کی نعمتیں اللّہ تک پہنچنے کا راستہ ہیں اگر وہ آپ کے دل میں کھُب نہ جائیں تو۔ یاد رکھیں جو شے دل میں کھُب جائے پھر اس کا آپکی زندگی پر قابو ہو جاتا ہے ۔پھر وہی آپکے لیے صحیح غلط کا تعین کرتی ہے پھر آپ اسی کے راستے پر چلتے ہیں پھر سب کچھ اسی کے لیے قربان ہوتا ہے۔ اس لیے دل میں صرف اسی کو جگہ دیں جو عارضی نہ ہو ، جو نا پائیدار نہ ہو، جو قابلِ بھروسہ ہو، جو آپکا خیر خواہ ہو، جو ہمیشہ رہے جو ہر وقت حاضر و ناظر ہو، جو آپکی محبت کو ضائع نہ کرے، جس کے ساتھ تعلق کبھی ختم نہ ہو۔ ایسا صرف اللّہ ہے۔جو ہمارا خالق و مالک ، رحمٰن و رحیم ہے قرآن بھرا ہے ہمارے رب کی صفات اور وعدوں سے ۔ کوئی ہے جو رجوع کرے۔

Comments