اندر کا خلا

 



اپنے اندر کے خلا کو پُر کرنے سے اپنے اصلی مقام جنّت تک کا سفر
ہم اپنے اصلی گھر جنّت میں تھے پھر ہمیں وہاں سے جانا پڑا۔ ہم زمان و مکان کا سفر طے کرکے ایک نئی دنیا میں آگئے،ایک کم تر دنیا میں ۔ایک انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ ہم خدا سے دور ہو گئے اب نہ ہی اسکے قرب کو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے براہِ راست ہم کلام ہو سکتے ہیں ۔جیسے ہمارے والد حضرت آدم کو یہ شرف حاصل ہوا تھا۔
نتیجتًا ہم خدا سے دور ہو کر اس دنیا میں آگئے جس سے ہمارے اندر ایک خلا پیدا ہو گیا ۔ جو ایک تکلیف دہ درد کا مؤجب تھا۔ ہم سب اس درد کے احساس کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں وقت گذرنے کے ساتھ اس احساس میں اضافہ ہوتا گیا اور ہم اس درد کے حل کی تلاش میں اس کے علاج سے ہی دور ہوتے گئے جو کہ قربِ الٰہی تھا، دل و دماغ اور روحانی قُرب . 
سو ہر گذرتے سال کے ساتھ ہم اس خلا کو جو ہمارے اندر تھا پُر کرنے کے لیے بے چین ہوتے گئے۔اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ہم نے غلطی کی ہم ٹھوکر کھا گئے ۔ہم اپنے آپ کو دھوکہ دینے لگے ہم میں سے ہر ایک مختلف چیزوں سے اپنے آپ کو بہلانے لگا۔اور کچھ نے اس خالی پن کے احساس کو سُلانے کی کوشش کی۔کچھ نے نشہ آور ادویات اور الکوحل کا سہارا لیا اور کچھ نے دوسرے نشوں کا۔کچھ نے اس خلا کو دولت،رتبے اور مادی چیزوں سے ملنے والی خوشیوں سے پُر کرنے کی کوشش کی،تو کسی نے اپنے آپ کو روشن مستقبل کی دوڑ میں گم کر دیا۔
اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لوگوں سے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی۔
کاش کہ اگر ہماری ہر کوشش، ہر چیلنج، ہر تجربے کا مقصد اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوتا ۔ ہماری ہر جیت ،ہر ہار ، ہر اہتمام، اپنے اور رب کے درمیان حائل پردوں کو گرانے کے لیے ہوتی ۔اس مقام تک پہنچنے کی کوشش ہوتی جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا۔
کیوں نہ ایسا ہوتا کہ ہمارا مقصد رب کو پانا ہوتا ۔

کیوں نہ ایسا ہوتا کہ ہمارا اصل مقصد رب کو پانا ہوتا ۔زندگی میں ہر تجربے کا مقصد ضرور ہوتا ہے اب یہ ہم پر منحصر  ہے کہ ہم اس کا احساس کریں یا نہ کریں ۔قدرتی خوبصورتی کی مثال لے لیں  ہم میں سے بہت سے اسے نظرانداز کر دیتے ہیں ۔غروبِ آفتاب کا نظارہ ہو یا پھلوں کا باغ ہم بغیر دھیان دیے گذر جائینگے۔کچھ لوگ خوبصورتی کو محسوس کرتے ہیں اسکی تعریف کرتے ہیں اسے اپنے اندر سموتے ہیں اور جذبات سے مغلوب بھی ہوتے ہیں۔لیکن صرف اسی حد تک رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پینٹنگ یا فن پارے کی تعریف کرے اور بنانے والے فنکار کو یکسر نظرانداز کر دے۔فن کار بھی اس پینٹنگ کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہتا ہے۔اگر پینٹنگ کو پسند کرنے والے ، فنکار کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیں گے تو اس پیغام تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے جس سے اس  فن پارے کے بنانے کا اصل مقصد پورا نہیں ہوگا 
اس شاندار سورج، سردیوں کی پہلی برف ، ہلال چاند اور بڑے بڑے سمندروں کا مقصد اس خالی سیّارے کی سجاوٹ نہیں تھا۔اس کا مقصد اس سے بڑھ کر تھا۔جیسا کہ اللّہ تعالٰی نے قرآن پاک میں فرمایا
“ بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں “
“جو لوگ کھڑے بیٹھے اور اپنی کروٹوں کے بل اللّہ کا ذکر کرتے ہیں ۔اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکّر کرتے ہیں (کہتے ہیں) اے ہمارے رب تو نے یہ سب باطل نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا” (قرآن 3:190)
تمام خوبصورتی ایک نشانی کے طور پر تخلیق کی گئی ہے۔ جِسے صرف خاص لوگ سمجھیں گے وہ لوگ جو تفکّر  کرتے ہیں ، غوروفکر کرتے ہیں ،دھیان دیتے ہیں اور ہر حالت کھڑے بیٹھے لیٹے ان کا دھیان اپنے رب کی طرف ہوتا ہے
یہاں تک کہ غروبِ آفتاب کے منظر کے پیچھے کی حقیقت کو بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔صرف اس منظر کی جادوئی خوبصورتی میں اپنے آپ کو ہی گُم نہیں کرنا چاہئے۔اس منظر کے پیچھے چھپی خوبصورتی پر تفکّر کرنا چاہئے۔جو کہ اصل خوبصورتی ہے اور تمام خوبصورتیوں کا سر چشمہ ہے۔باقی ہر خوبصورتی اس اصل خوبصورتی کا عکس ہے۔
ہمیں ستاروں،درختوں،برف سے ڈھکے پہاڑوں کے وجود کے پیچھے اصل پیغام کو سمجھنے کے لیے اِن پر تفکّر کرنا چاہئے ورنہ ہمارا حال اس شخص جیسا ہوگا۔ جسے ایک خوبصورت بوتل میں ایک بہت اہم پیغام ملا اور وہ شخص اس بوتل کی خوبصورتی میں ہی محو ہو گیا کہ اس نے اندر کے پیغام کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔وہ کیا پیغام ہے جو لا تعداد ستاروں کے جھرمٹ میں چھپا ہے؟اِن میں ایک نشانی ہے۔ کیا نشانی ہے؟ یہ نشانیاں اشارہ کرتی ہیں اُس ذات کی طرف ،اسکی قدرت کی طرف،اسکی عظمت کی طرف، اسکے جمال کی طرف اسکے جلال اور طاقت کی طرف۔
مخلوق کی خوبصورتی اور طاقت کے بارے میں جانیے،سوچئے،سمجھئے لیکن صرف اسی حد تک نہیں بلکہ مخلوق کے سحر سے نکل کر یہ سوچئے کہ جس کی تخلیق اتنی طاقتور اور شاندار ہے تو وہ خالق کتنا صاحبِ قدرت و جاہ و جلال ہوگا
حاصل کلام یہ ہے کہ 
رَبّنا مَا خَلقࣿتَ ھَذٰا بَاطِلاً سُبحَانَکَ
“اے میرے رب آپ نے کچھ بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا آپ کی ذات پاک ہے “
(قرآن 3:191)
مقصد!! کچھ بھی بلا مقصد پیدا نہیں ہوا۔نہ کچھ آسمانوں میں اور نہ زمینوں میں ،نہ مجھ میں نہ ہی آپ میں  کچھ بھی بلا مقصد نہیں ہے ۔ نہ ہی زندگی کا کوئی تجربہ ، نہ ہی کوئی لمحہ، نہ تکلیف ،نہ خوشی ،نہ درد ،۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ نقصان بغیر مقصد کے ہیں ۔تو بوتل کے اندر کے پیغام کو سمجھنے کے لیے سورج،چاند ستاروں اور آسمانوں پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں میں ہونے والے واقعات کے پیچھے چھپے اصل پیغام کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ہمیشہ خدا کی طرف سے اشارے کا انتظار ہوتا ہے کہ خدا ہمیں بتائے، لیکن وہ اشارے تو ہر وقت ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں ۔وہ ہر چیز میں ہیں خدا ہر وقت ہماری رہنمائی کر رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہم دھیان دے رہے ہیں یا نہیں ؟
“اور وہ لوگ جو نہیں جانتے ، کہتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔اسطرح جو لوگ ان سے پہلے تھے ،وہ بھی انہی کی سی باتیں کرتے تھے۔ان لوگوں کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں ۔جو لوگ صاحبِ یقین ہیں ۔ ان کے سمجھانے کے لیے نشانیاں بیان کر دی گئی ہیں “  (قرآن 2:118)
اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی حقیقت اور انکا پس منظر سمجھ سکیں ، جو کام ہوئے اور جن کو کرنے میں نا کا می ہوئی۔ اور اس میں چھپی اللّہ کی رضا کو سمجھ سکیں اور سمجھیں اصل مقصد پا لیا ۔اگر سب کچھ آپکی مرضی کے مطابق بھی ہو رہا ہو تو اصل نقطے سے دھیان نہیں ہٹنا چاہئے۔ہمیشہ یاد رکھیں کچھ بھی بے مقصد نہیں ہوتا۔جو بھی ہوا اس میں اللّہ کا مقصد تلاش کرنے کی کوشش کریں۔اللّہ اپنی کس جھلک کا جوبر دکھانا چاہ رہا ہے؟ اللّہ آپ سے کیا چاہتا ہے؟ اسی طرح جب کوئی ناپسندیدہ واقعہ رونما ہو جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو بھی احتیاط کریں اور درد اور تکلیف کے فریب میں گُم نہ ہوں۔غور کریں اور بوتل کے اندر کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مقصد کو ڈھونڈیں اور اس کے ذریعے اسکی ذات کے اور قریب ہونے کا موقعہ حاصل کریں۔اگر دین کے معاملے میں کوئی بھول چوک یا بڑا جٌرم سرزد ہو جائے تو شیطان کو مایوسی پھیلانے کا موقعہ نہ دیں ۔اس غلطی کو خدا کی رحمت کے قریب ہونے کا موقعہ بنائیں اور اسکی مغفرت کو آنے گناہوں اور قانون شکنی سے نجات کا ذریعہ بنا لیں
اگر آپ مشکل کے پہاڑوں میں گھِرے ہیں تو مایوس نہ ہوں آپ کا رب اَلفتّاح ہے وہ اپنے بندوں کے لیے بند دروازے کھول دیتا ہے۔ جب آپ طوفانوں میں گِھرے ہوں تو اپنے آپ کو لہروں کے سپرد نہ کریں بلکہ یقین رکھیں کہ اللّہ اپنے فرمان برداروں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑتا۔ 
“اور یاد رکھیں جب تمام مخلوقات صفحہ ہستی سے مِٹ جائیں گی اور کوئی ذی روح باقی نہیں بچے گا سوائے اللّہ کہ تو اللّہ پوچھے گا لِمنِ المُلکُ الیوم کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟ 
اللّہ فرماتا ہے
“جس روز وہ نکل پڑیں گے ان کی کوئی چیز اللّہ سے مخفی نہ ہو گی۔آج کس کی بادشاہت ہے؟ خدا کی جو اکیلا اور غالب ہے”
(قرآن 40:16)
اگر آج کی تاریخ میں ہم اس آیت کا تجزیہ کریں تو کون خود مختار ہے آج ؟ آج کس کی بادشاہت ہے؟ کون آپ کو مکمل طور پر تحفّظ دے سکتا ہے؟ کس کے ہاتھ میں شفا ہے؟ آپ پریشانی میں کس کی طرف رجوع کرتے ہیں؟ 
کون آپکے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے؟ کون ساری نعمتوں کا مالک ہے؟ 
لِمَنِ الࣿمُلکُ الیَومࣿ لِلوَاحِدِ القَھَّار 
کس کی ساری بادشاہت ہے۔ صرف اس واحد اور قھّار کی۔
اس کے علاوہ کسی اور کی طرف رجوع کرنے کا مطلب ہے اپنے آپ کو مزید الجھنوں میں ڈالنا۔اُس کے علاوہ کسی اور سے امید رکھنے کا مطلب ہے اپنے آپ کو مایوسیوں میں مبتلا کرنا۔ ہمارے دل ،دماغ اور روح کا علاج اُس خدائے بزرگ و برتر کی ذات کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔
سو جس نقطے کا شروع میں ذکر کیا تھا کہ ہم سب کو کس کی تلاش ہے ؟ہمیں کس کی طرف لوٹنا ہے؟ 
ہم سب کی ایک ہی جدوجہد ہے۔ہم سب کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہے۔جہاں اصل سکون اور خوشی کا احساس ہے ۔اپنے ابدی گھر کی طرف جہاں سے ہم سفر پر نکلے تھے ۔اب واپس گھر جانا ہے “جنّت میں”

Comments