حقیقت پر نظر

 


جدائی کے بعد مِلن بھی ہے؟
لوگ رخصت ہوتے ہیں لیکن کیا وہ واپس بھی آتے ہیں ؟ جدائی مشکل ہے اور کھو دینا اور بھی تکلیف دہ ۔سو کچھ عرصہ پہلے میں نے سوال کیا تھا کہ جدائی کیوں بنی ہے؟ اسکا جواب مجھے اپنے ماضی کے کچھ گہرے احساسات اور مشکل لمحات میں لے گیا ۔تاہم اس نے مجھے یہ بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ لوگوں کے جانے کے بعد ان سے ملنے کی کوئی امید ہوتی ہے۔جب ہماری محبوب چیز بچھڑتی ہے تو پھر واپس ملنے کی کوئی امید ہے۔کیا نقصان دائمی ہے یا بڑے مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ، کیا نقصان نتیجہ ہے یا اس میں کوئی حکمت ہے۔
اس دنیا کے بارے میں ایک بات بہت حیرت انگیز ہے کہ دنیا کی جو فطرت ہمیں تکلیف دیتی ہے وہی فطرت ہمارے درد کا مداوا بھی ہے۔دنیا میں سب کچھ عارضی ہے اس کا کیا مطلب ہے ، اسکا مطلب یہ ہے کہ جو بے حد خوبصورت پھول میرے گلدان میں سجا ہے یہ کل مرجھا جائیگا، اسکا مطلب ہے کل میری جوانی ڈھل جائے گی،لیکن دوسری طرف اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ جس درد کی شدّت آج میں محسوس کر رہی ہوں وہ شدّت کل نہیں رہے گی۔میری تکلیف ختم ہو جائے گی۔اگر میری خوشی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہی تو میرا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا مکمل نہیں اسکا مطلب ہے کہ نہ یہ مکمل طور پر اچھی ہے اور نہ ہی مکمل طور پر بری۔ 
اللّہ جلّ شانہُ نے ایک گہری آیت میں فرمایا ہے کہ 
“ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے”(قرآن ۹۴:۵)
میں نے ہمیشہ اس کا غلط معنی سمجھا کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے یعنی زندگی اچھے اور برے واقعات کا مجموعہ ہے برے وقت کے بعد اچھا وقت بھی آتا ہے یعنی وقت یا تو اچھا جا رہا ہوتا ہے یا بٌرا۔
لیکن اس آیت کے الفاظ تو یہ نہیں کہ رہے آیت میں کہا گیا ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ۔یعنی مشکل اور آسانی اکٹھے ایک ہی وقت میں آپ کی زندگی میں موجود ہوتے ہے۔یعنی زندگی مکمل طور پر اچھی یا مکمل طور پر بری نہیں ہوتی 
ہر مشکل حالات میں کچھ نہ کچھ اچھا ہو رہا ہوتا ہے جس کا شکر ادا کیا جائے ۔مشکل حالات کو جھیلنے کے لئے اللّہ نے ہمیں صبر اور طاقت بھی دی ہوتی ہے 
اگر ماضی کے حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت بھی کچھ نہ کچھ اچھا ہو رہا تھا ہماری زندگی میں ،لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری توجہ کا مرکز کونسا معاملہ رہا،کیا ایک ہی فکر نے ہماری سوچ کو دن اور رات قابو میں رکھا۔
گر ہم ماضی کے مشکل حالات کا جائزہ لیں تو ان لمحوں میں کچھ نہ کچھ اچھا بھی ہو رہا تھا لیکن سوال یہ کہ ہماری توجہ کس طرف مرکوز تھی ہمارا سارا دھیان مسئلے کی طرف تھا اس لیے وہ وقت ہمیں برے دن کے طور پر یاد رہتا ہے۔ ہمیں یہ دھوکہ ہے کہ وقت کبھی اچھا ہوتا ہے اور کبھی برا یا کسی کی زندگی اچھی گذر رہی ہے اور کسی کی بری ، لیکن یہ ایک جھوٹا خیال ہے کیونکہ یہ دنیا کی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو آخرت کی حقیقت ہے ۔یہ خصوصیت صرف آخرت کو حاصل ہے جہاں جنّت مکمل طور پر اچھی اور جہنم مکمل طور پر بری جگہ ہے۔ 
اس حقیقت سے نا آشنا ،میں خود بھی وقتی حالات چاہے اچھے ہوں یا برے کی لپیٹ میں آ جاتی تھی۔ میں نے ہر معاملے کو بہت شدت سے محسوس کیا جیسے یہ ہی حرفِآخر ہے اور کبھی ختم نہ ہو گا۔ اس لمحے کے جذبات میرے آس پاس کی دنیا  کے بارے میں میرے خیالات اور تجربات بدل دیتے یعنی اگر وہ لمحہ خوشی کا ہوتا تو اس وقت مجھے سب اچھا لگتا ،زندگی سے کوئی شکایت نہ ہوتی،جیسے سب ٹھیک ہے کسی مسئلے کا وجود ہی نہیں۔ اور اگر وہ لمحہ بُرا ہوتا تو سب کچھ ساری کائنات بری لگتی۔کیونکہ وہ لمحہ ہی میری کائنات بن جاتا اور اس کے علاوہ مجھے کچھ دکھائی نہ دیتا۔باقی ہر چیز اپنا وجود کھو دیتی ۔اگر کوئی مجھے خفا کرتا تو میں اسکا یہ معنی سمجھ لیتی کہ اب اس کو مجھ سے محبت نہیں رہی ،اسکو میری پرواہ نہیں رہی ۔اس وقت میرے جذبات تمام پس منظر کو بدل دیتے اور میں سب کچھ مختلف انداز سے دیکھنے لگتی ۔بجائے یہ سمجھنے کے کہ جن کے ساتھ تعلق اور رشتہ ہو ان کے ساتھ گذارے ہوئے لمحوں کے مختلف روپ ہوتے ہیں ۔اُن میں ہر جذبے کی جھلک ہوتی ہے کیونکہ ہم سب کمزور ہیں۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم میں سے کچھ خاص طور پر اس معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں ۔اس لیے یہ جملہ ہمارے تجربے میں بہت رہتا کہ “ تم سے اچھائی کی کوئی امید نہیں”۔
شائد ہم میں سے کچھ ایسا کہتے اور سوچتے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس لمحے ہمیں اچھائی نظر نہ آ رہی ہو اور اس لمحے کی سوچ پچھلے تمام تجربوں پر حاوی ہو رہی ہو۔ ماضی اور حال ایک ہی لمحے میں سما جاتے ہیں 
لیکن اس بات کا احساس کہ کوئی بھی عیب اور کمزوری سے پاک نہیں ہماری سوچ بدل دیتا ہے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر پچھتاؤں اور نقصان کے احساس سے بچا لیتا ہے۔ اور کوئی لمحہ کوئی احساس کوئی حالات دائمی نہیں سب وقتی ہیں تو اللّہ تعالٰی ہم پر اس دنیا کی حقیقت آشکار کر دیتے ہیں اور ہم زندگی کے واقعات کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی ان کی حیثیت ہوتی ہے۔ اسے اپنے اوپر مسلّط نہیں کرتے۔ 
جب تک میری زندگی ہے میرا کوئی دکھ ،میرا نقصان اور میری تکلیف حرفِ آخر نہیں ۔جب تک زندگی ہے!! حالات بدلنے کی اُمید ہے ہر نقصان کے ازالے کی امید ہے 
اس سوال کا جواب کہ جو کھو دیا وہ واپس آتا ہے یا نہیں ،کیا نقصان کا ازالہ ہوتا ہے یا نہیں ، میں نے بہت ہی خوبصورت مثالوں سے سیکھا، کیا حضرت یوسف اپنے والد سے نہیں ملے ؟ کیا حضرت موسٰی اپنی والدہ کے پاس واپس نہیں آۓ ؟ کیا بی بی حاجرہ حضرت ابراہیم سے واپس نہیں ملیں؟ کیا حضرت ایّوب کو صحت،اولاد،دولت واپس نہیں ملے؟ ان قصّوں سے ہمیں بہت خوبصورت اور طاقتور سبق ملتے ہیں 
جو چیز اللّہ لیتا ہے وہ گم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔صرف وہی باقی رہتی ہے باقی سب فنا ہو جاتا ہے۔
“ تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور اللّہ تعالٰی کے پاس جو کچھ ہے باقی ہے اور صبر کرنے والوں کو ہم اچھے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے”(قرآن 16:196)
جو چیز اللّہ لے لیتا ہے وہ کبھی گم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے اور باقی ہر چیز کو فنا ہے۔ جو اللّہ کے پاس ہے وہی باقی رہے گا،حضور نے اس حقیقت کو ایسے بیان کیا ہے کہ “ تم اللّہ کے لیے کوئی چیز ترک نہیں کرتے یہاں تک کہ اللّہ اسے ایسی چیز سے بدل دیتا ہے جو تمہارے لیے بہتر ہو”(احمد)
کیا اللّہ تعالٰی نے امِّ سلمٰی کے خاوند کی جگہ انہیں حضرت محمد نہیں دئیے
کبھی کبھی اللّہ آپ کو دینے کے لیے آپ سے لیتا ہے یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اللّہ کے دینے کا معاملہ ضروری نہیں ویسا ہو جیسا ہم سمجھتے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ کیا صحیح ہے۔اللّہ تعالٰی کا ارشاد ہے
“ ممکن ہے تم ایک چیز کو نا پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں اچھی نہ ہو اللّہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے” (قرآن 2:216)
اگر چیزیں واپس مل ہی جانی ہے ایک یا دوسری حالت میں تو پھر وہ لی ہی کیوں جاتی ہیں ؟؟؟ 
سبحان اللّہ !! یہ کھونے کا عمل ہے جس میں حکمت چھپی ہے۔
اللّہ تعالٰی ہمیں نعمتوں سے نوازتا ہے تو ہم انہی نعمتوں پر انحصار کرنے لگتے ہیں اللّہ کو چھوڑ کر، جب وہ ہمیں دولت سے نوازتا ہے تو ہم دولت کو ہی مسئلوں کا حل سمجھنے لگتے ہیں دولت کو ہی اپنا سب سے بڑا سہارا بنا لیتے ہیں۔جب ہمیں اچھے تعلقات سے نوازتا ہے تو ہم انہیں لوگوں پر انحصار کرنے لگتے ہیں انہی کو اپنی کمزوری بنا لیتے ہیں جب وہ ہمیں عزّت طاقت اور رتبہ دیتا ہے تو یہ چیزیں اللّہ سے ہمارا دھیان ہٹا دیتی ہیں ، جب اللّہ ہمیں صحت اور طاقت دیتا ہے تو ہمیں گمان ہونے لگتا ہے کہ ہمیں کبھی موت نہیں آئیگی۔
اللّہ تعالٰی ہمیں نعمتوں سے نوازتا ہے اور ہم ان نعمتوں میں اتنا محو ہو جاتے ہیں کہ اللّہ کو بھول جاتے ہیں ان نعمتوں سے ایسے دل لگاتے ہیں جیسے اللّہ سے دل لگانے کا حق ہے۔ یہ نعمتیں ہمارے دل پر قبضہ کر لیتی ہیں ،ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ہر جاگتا لمحہ انہی نعمتوں کی فکر ،انہی کی دیکھ بھال ، اور انہی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ہمارے دل و دماغ جو اللّہ کی خوبصورت تخلیق تھے اور ہماری سوچ اور محبت جسکا مرکز اور محور اللّہ کی ذات ہونا چاہئے تھا، اُن پر چیزوں اور لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔اور ان نعمتوں کو کھونے کا ڈر دل میں گھر کر جاتا ہے۔وہ نعمت جو صرف استعمال کرنے کی چیز تھی ہم ان کے قیدی ہو جاتے ہیں۔
اب ہمیں رہائی کیسے ملتی ہے؟ 
اس وقت اللّہ کی رحمت ہمیں اس کشمکش سے آزاد کر دیتی ہے اور وہ نعمت ہم سے لے لی جاتی ہے۔اس نعمت کے جانے پر ہم پوری یکسوئی سے اپنی توجہ کا رخ اللّہ تعالٰی کی جانب کر دیتے ہیں اس پریشانی اور ضرورت کے لمحوں میں ہم اللّہ سے دعائیں ، التجائیں کرتے ہیں ۔اس نقصان کے بعد ہمیں اللّہ سے قرب عاجزی و انکساری کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو اس کے بغیر نہ ہوتا اس نعمت کے جانے کے بعد ہی ہمارا دل خالص اللّہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
کیا ہوتا ہے جب آپ اپنے بچّے کو اسکا پسندیدہ کھلونا یا وڈیو گیم لا کر دیتے ہیں ۔وہ گیم ہی بچّے کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور وہ اس کے علاوہ سب بھول جاتا ہے کچھ کرنا نہیں چاہتا حتّٰی کہ کھانا کھانا بھی ۔اسکا اپنا شوق اس پر حاوی آ جاتا ہے۔تو ایک ذمّے دار والدین ہونے کے ناطے آپ کیا کرتے ہیں، کیا آپ اسے اسی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی اور پسند کی دھن میں وقت اور صحت کا توازن کھو بیٹھے
نہیں بلکہ آپ اس سے وہ گیم چھین لیتے ہیں  ۔پھر جب ایک بار اس بچے کی توجہ اپنی ترجیحات پر واپس آجاتی ہے ،اس کا توازن ٹھیک ہوجاتا۔جب اسکی زندگی ،دل و دماغ میں ہر چیز اپنے صحیح مقام پر آجاتی ہے تو کیا ہوتا ہے
آپ اسے اس کی گیم لوٹا دیتے ہیں۔یا پھر اس سے بھی کچھ بہتر لیکن اس وقت تک بچہ توازن اور ڈسپلن سیکھ چکا ہوتا ہے اور چیزوں کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا۔
واپس لینے کے عمل میں ایک بہت اہم چیز وقوع پذیر ہوتی ہے
نعمتوں کا کھونا اور پانا معمولی بات ہے لیکن اس عمل میں جو نعمت آپ کو ملتی ہے وہ اللّہ کی طرف رجوع ،قربِ الٰہی عاجزی اور انکساری ہے آپ دکھ اور تکلیف میں غفلت اور لا پرواہی سے نکل کر اور جھوٹے سہاروں کو چھوڑ کر خالص اللّہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اللّہ آپ کو نوازنے کے لیے ہی آپ سے لیتا ہے۔ اور کبھی غموں کے بعد قربِ الٰہی کی سب سے بڑی نعمت دے دیتا ہے 
اللّہ تعالٰی نے مالک ابن دینار کو بچانے کے لیے اُس کی بیٹی لے لی اور بدلے میں اُسے جہنّم کی آگ سے اور گناہوں کی زندگی سے بچا لیا۔اس نقصان کی وجہ سے مالک ابن دینار کو قرب الٰہی نصیب ہوا اور جو بیٹی اللّہ نے لے لی تھی وہ بھی جنّت میں مل جائے گی ہمیشہ کے لیے۔
ابنِ قیّم اس رجحان کے بارے میں اپنی کتاب مدارجِ السالکین میں بیان کرتے ہیں “ مومن کے لیے حکمِ الٰہی میں ہمیشہ فضل ہوتا ہے۔ چاہے بظاہر کوئی خواہش روک دی گئی ہو ۔حکمِ الٰہی میں رحمت ہوتی ہے چاہے بظاہر وہ آزمائش یا مصیبت ہو ،علاج ہوتا ہے چاہے بظاہر بیماری ہو”
سو اس سوال کا جواب کہ جو نقصان ہو جاتا ہے یا جو چیز لے لی جاتی ہے کیا وہ کبھی واپس بھی ملتی ہے
جواب ہے جی ہاں! واپس ملتا ہے کبھی جلد کبھی بدیر کبھی مختلف اور کبھی مزید بہتر۔لیکن سب سے بڑی نعمت کھونے اور ملنے کے عمل میں چھپی ہے۔
“ کہہ دیجیئے کہ اللّہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت پر چاہئے کہ خوشی کریں ۔یہ ان سب سے بہترہے جو ( دھن دولت ) تم جمع کرتے ہو” (قرآن 10:58)


Comments